2 149

خیبرپختونخوامیں کورونا کا پھیلائواور شرح اموات میںاضافہ

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کورونا وائرس کا پاکستان میں تیزی سے پھیلائو اور اموات کی شرح میں اضافہ، لاک ڈائون میں نرمی اور بعض کاروبار کی اجازت دینے کے حوالے سے خاص طور پر تشویش کی بات ہے۔ اس سے بڑھ کرتشویش کی بات یہ ہے کہ شہری حفاظتی اقدامات اور سماجی دوری کو ضروری ہی نہیں سمجھتے۔ پولیس کی جانب سے گزشتہ روز شہر میں ممکنہ سختی بھی برتی گئی لیکن جب عوام خود سماجی دوری، فاصلہ رکھنے اور حفاظتی امور کا خیال نہیں رکھیں گے حکومت سے اس پر پابندی کی نہ تو توقع ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران خیبرپختونخوا میںمزید دس اموات ہوئیں جو وائرس کی ابتداء سے اب تک ہونے والی اموات کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اپریل میںوائرس کے متاثرین کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور مئی تک اس کے عروج پر پہنچنے کا خطرہ ہے۔ اٹھارہ مارچ سے اکتیس مارچ کے عرصے میںچھبیس افراد کورونا وائرس سے انتقال کر گئے جبکہ اپریل کے پہلے اٹھارہ روز میں ایک سو بائیس افراد کی موت واقع ہوئی۔جوں جوں ملک میں ٹیسٹنگ کی تعداد بڑھ رہی ہے اس طرح کے کیسز میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں گزشتہ روز تک مزید ساٹھ کیسز رپورٹ ہوئے جو کیسز رپورٹ نہیں ہوئے اور جن مریضوں کا ٹیسٹ نہیں لیا جا سکا ان کی تعداد نصف یا تہائی نہیں بلکہ ابھی تک تو آبادی کے ایک دو فیصد کو بھی رینڈم ٹیسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ صوبے میں ٹیسٹ کرنے کا معیار مشکوک مریضوں کو بھی بمشکل حاصل نہیں، اس طرح مریضوں کی ہسپتالوں سے رجوع کی حوصلہ افزائی کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی اور ان کو ہسپتالوں سے دور رکھنے کی روش اختیار کی گئی ہے۔ بعض مریض اور ان کے اعزہ خود بھی اس مرض کو مخفی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ موت کی صورت میں بھی حکام کو خبر نہیں ہونے دیتے۔ اس طرح کی صورتحال کورونا وائرس کے پھیلائو کیلئے زیادہ فطری ماحول کا باعث ہے۔ اس حوالے سے خیبرپختونخوا کی حکومت اور محکمہ صحت کوئی حکمت عملی وضع کرنے میں ناکام ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق محکمہ صحت کے حکام اور حکومت حکمت عملی اور طریقہ کار پر ایک صفحے پر نہیں، معاملات میں ابہام عملی اقدامات میںرکاوٹ بن رہے ہیں، اس قسم کی صورتحال میں حالات کے خدانخواستہ مزید سنگین ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ حکومت کی جانب سے لاک ڈائون کی مدت میں توسیع اور بچائو کی تدابیر کے باوجود نئے کیسز کی تعداد میںکمی آنے کی بجائے اضافہ کا رجحان باعث تشویش امر ہے۔ حکومت کے پاس اولاً ٹیسٹ کرنے کی استعدادواجبی سی ہے اور ممکن ہے اس میں اضافہ کی سنجیدگی کیساتھ سعی نہ ہونے کی ایک وجہ ٹیسٹوں کے نتیجے میں صوبے میں اس کی شرح حیران کن حد تک خطرناک ہونے کے امکان کے پیش نظر سست روی اختیار کی جارہی ہو، خود صوبائی وزیر صحت نے ایک حالیہ بیان میں دس فیصد اضافہ کا امکان ظاہر کیا تھا یہ شرح اب بڑھ گئی ہوگی۔ بہرحال صورتحال کی بہتری کی یہی صورت نظر آتی ہے کہ ٹیسٹ کی صلاحیت میںاضافہ کیا جائے تاکہ متاثرہ افراد کی تصدیق کا عمل تیز ہو،حکومت اس کی سعی میں نظر تو آتی ہے مگر یہ کافی نہیں۔ خیبرپختونخوا میں ٹیسٹ کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت کم اور شرح اموات زیادہ ہونے کے باعث اس امر کا شبہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبے میںمتاثرہ افرادکی تعداد موجودہ تصدیق شدہ کیسز سے کہیں زیادہ ہوگی۔ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ وائرس کے پھیلائو اور لوگوں کو متاثر ہونے سے بچانے میںکوتاہی نہ کی جائے، کوتاہی یا غفلت کے نتائج صحت عامہ اور قومی معیشت دونوں کیلئے نہایت بھیانک ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ فلیٹوں اور گنجان علاقوں میں رہائش پذیر ہیں یا پابندیوں کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے، آبادی کے اس حصے میںٹیسٹنگ رینڈم کے اصول کے تحت کیا جائے۔رمضان المبارک میں مساجد میںنماز تراویح کی ادائیگی کا فیصلہ بھی حساس نوعیت کا ہے اور بھی کئی عوامل ہیں جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ صوبے میں وائرس کے پھیلائوکی شرح میں اضافے کی وجوہات کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لیکر حکمت عملی میں تبدیلی لانے اور کمزور فیصلوں کی بجائے متفقہ لائحہ عمل اپنانے اور بہتری لانے کیلئے رمضان المبارک سے قبل اقدامات نہ کئے گئے تو خدانخواستہ صورتحال سے نمٹنا بہت مشکل ہوگا۔ کم ازکم فوری طور پر اس امر کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ بغیر ماسک کے کسی بھی شہری کو گھر سے باہر نکلنے اور بازاروں میں سوداسلف لینے پر گرفتاری وسزا یا جرمانہ شروع کیا جائے تو غنیمت ہوگی۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''