logo 14

آئی پی پیز انکوائری رپورٹ میںتاخیر کا معاملہ

وفاقی حکومت کی جانب سے چینی سکینڈل کے حوالے سے ایف آئی اے کی رپورٹ کے فرانزک آڈٹ کے بعد کارروائی کا عندیہ اور مقررہ تاریخ سے قبل ہی مزید وقت دینے کے عمل پر شکوک وشبہات کااظہار کیا جارہاتھا کہ وفاقی حکومت نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے منافع سکینڈل کی رپورٹ عام کرنے کا فیصلہ واپس لیکر چہ میگوئیوں کا ایک اور باب کھولا ہے۔ اس رپورٹ کے حوالے سے صدر پاکستان کا ایک نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹر ویو کا ایک جملہ بڑا مشہور ہوا تھا جو اس رپورٹ کی سنگینی کے حوالے سے تھا۔ واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے اکیس اپریل کو باضابطہ منظوری دی تھی کہ یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ہے جس کیلئے انکوائری کمیشن کا قیام ناگزیر ہے، اسی موقع پر اس رپورٹ کو عام کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا لیکن اب نہ صرف اس رپورٹ کو عام کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے بلکہ وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کے قیام کو بھی دو مہینے کیلئے مؤخر کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ انکوائری کمیشن بنانے کا مقصد یہ تھا کہ جن لوگوں نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ان کیخلاف کارروائی کی راہ ہموار ہوسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چینی سکینڈل لیک ہو کر میڈیا پر آنے کے بعد حکومت کا اسے عام کرنے سے جس قسم کے عناصر کے ملوث ہونے کا انکشاف سامنے آیا تھا اور اس کی براہ راست اور بادی النظر میں ذمہ داری جن عہدیداروں اور افراد پر عائد ہورہی تھی اور خاص طور پر ان افراد کیخلاف کارروائی کے جومضمرات تھے اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ آئی پی پیز کے معاملے میں بھی کم وبیش صورتحال یہی ہے، وطن عزیز میں منظم بدعنوانی اور لوٹا ہوا مال ہڑپ کرنے والے عناصر ایک ایسے منظم مافیا کا حصہ ہوتے ہیں جن کی اگر ایک ٹکڑی اقتدار سے محروم اوریہاں تک کہ احتساب کی زد میں بھی ہو، تو ایک ٹکڑی اقتدار کے ایوانوں میں براجمان رہتی ہے۔ ان عناصر کی سیاسی وشخصی مخالفت خواہ کتنی بھی گہری اور نفرت انگیز ہو کا روباری مفادات اور ایک دوسرے کا تحفظ لازمی ہوتا ہے۔ چینی سکینڈل ہو یا آئی پی پیز کا معاملہ دونوں اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ پھر جہاں بین الاقوامی معاہدے اور معاملات ہوں وہاں معاملات بین الاقوامی اور بین الملکی ہونے کے بعد ایک اور بڑی مضبوط زنجیر حکومت وقت کے پائوں پر بندھی ہونے سے واسطہ پڑ تا ہے اور بالآخر فیصلوں پر نظرثانی اور معاملات پر مٹی ڈالنے کی نوبت آجاتی ہے۔ ریکوڈک سٹیل ملز کی فروخت اور اس جیسے بعض دیگر معاملات میں عدالت کی مداخلت سے معاملات کو آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوتا لیکن ڈیل کی خلاف ورزی پر متعلقہ فریق بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ لیجانے سے حکومت کو ہی لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ ان حالات میں وفاقی کابینہ کے فیصلے اور حکومت کی داخلی وخارجی مشکلات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ وطن عزیز میں اہم نوعیت کے منصوبوں اور ملکی وبین الاقوامی معاہدوں کوپارلیمنٹ میںپیش نہ کرنا اورپارلیمان سے اس کی منظوری نہ لینے کا عمل جب تک جاری رہے گا اس طرح کے معاملات اور مسائل آئندہ بھی پیش آتے رہیں گے۔ ہمارے تئیں ماضی میں کیا ہوتا رہا اور احتساب کے حقیقی عمل اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں سے وصولی کا عمل اگر خواب نہیں اور نا ممکن بھی نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہے۔ حکومت سخت اقدامات کی ٹھان بھی لے تو قانونی موشگافیوں میں معاملے کو اُلجھا کر صاف بچ نکلنے کا راستہ موجود ہوتا ہے۔ ایسے میں وفاقی کابینہ کے فیصلے کس حکمت عملی کے تحت کئے گئے آیا اسے احتساب کے عمل سے روگردانی یا بالادست عناصر کیخلاف کارروائی سے احتراز قرار دیا جائے یا پھر حکومت سیاسی طور پر اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ان تمام سوالات سے قطع نظر موجودہ حکومت اگر عملی طور پر اس امر کا آغاز کرے کہ کوئی بھی معاہدہ پارلیمان میں بحث کیلئے پیش کئے بغیر اور پارلیمان کی منظوری کے بغیر نہ کیا جائے، ایک ایسی روایت قائم کی جائے کہ پارلیمان کی منظوری ہر اہم معاملے کیلئے لازم بنادیا جائے، اس سے پارلیمان کے مؤثر، بالادست اور باوقار ہونے کا ثبوت بھی ملے گا اور کسی ایسے معاہدے کا راستہ بھی روکا جا سکے گا جس میں بد عنوانی کی کوئی صورت ہو اور وہ عوام کے مفادات کے سراسر خلاف ہو۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''