3 94

ٹیکنکل بورڈکے پی،سٹوڈنٹس انٹرنیٹ پیکج اور ٹیلی سکول

وفاقی وزیرتعلیم اور صوبائی وزراء کی مشاورت کے بعد تعلیمی بورڈز کے حکام میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طالب علموں کو بغیر امتحانات کے اگلی جماعتوں میں ترقی دینے کا طریقہ کار وضع کر کے اعلان کر دیا جس پر عملدرآمد کا مرحلہ ہے لیکن ٹیکنیکل ایجوکیشن خیبر پختونخوا بورڈ کے مختلف مدارج اور ڈپلومہ امتحانات کے منتظر طلبہ کو ابھی کوئی عندیہ نہیں دیا گیا تعلیمی ادارے بند ہیں، ٹیکنیکل ایجوکیشن خیبر پختونخوا بورڈ کی جانب سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا اور نہ ہی بورڈ کی ویب سائٹ پر طلبہ کی رہمنائی کیلئے کوئی مواد موجود ہے۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن خیبر پختونخوا بورڈ کے بہت سے طالب علموں کے برقی پیغامات میں اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان کو اس گومگو کی کیفیت سے نکالا جائے اور کوئی واضح اعلان کیا جائے۔ اگر امتحانات کے انعقاد کا فیصلہ بھی کیا جاتا ہے تو اس سے بھی طالب علموں کو آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اندھیرے میں نہ رہیں اور اپنی تیاری کر سکیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ملک میں ایک جیسے مسئلے پر ایک طرف تو فیصلہ کر لیا جاتا ہے اقدامات ہورہے ہیں اور دوسری طرف کسی کو یہ بھی خیال نہیں کہ پیشہ وارانہ تعلیم کے اداروں کے طالب علم کو ڈپلومہ سرٹیفیکٹ اور اگلی جماعت کا امتحان دینا ہے جن کیلئے کوئی فیصلہ کیا جائے۔ ممکن ہے ٹیکنیکل بورڈ کے حکام اس حوالے سے کوئی پالیسی مرتب کر رہے ہوں، بہتر ہوگا کہ مزید تاخیر کے بغیر واضح فیصلے کا اعلان کیا جائے تاکہ طلبہ یکسو ہو کر ملازمت کی تلاش یا پھر امتحان کی تیاری کر سکیں۔ وفاقی حکومت کی طرف سے ٹیلی سکول کے حوالے سے بھی ایک برقی پیغام موصول ہوا ہے جس میں جماعت اول سے لیکر بارہویں جماعت تک کی ٹی وی پر مختلف اوقات میں کلاسیں شروع کرنے کیلئے بچوں کو کلاس نمبر8228 پر ارسال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ آپ کو کلاس کے وقت کی معلومات دی جائیں۔ یہ کلاسیں روزانہ صبح چھ بجے سے شام آٹھ بجے تک ہوں گی۔ ذاتی طور پر میں اس کوشش کی دل سے قدر کرتی ہوں جس سے گھر بیٹھے بٹھائے طلبہ کو پڑھائی کے مواقع میسر آئیں گے افسوس سے کہہ رہی ہوں اس کی کم ہی قدردانی ہوگی اور اس کاوش سے کماحقہ استفادہ نہیں ہوسکے گا۔ ایسا بھی نہیں ایسے بہت سے والدین اور طالب علم ہوں گے جو اس موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں گے خاص طور پر دوردراز علاقوں کے طالبعلم جہاں ٹی وی کی سہولت ہو وہ اس سے پوری طرح فائدہ اُٹھائیں اور اگلے تعلیمی سال کی تیاری ابھی سے شروع کریں توقع کی جانی چاہئے کہ اس کا معیار اعلیٰ ہوگا اور خیبر پختونخوا میں میٹرک کے طالب علموں کو سکولوں کی جانب سے سیکھنے اور سننے کیلئے جو ویب سائٹ بتائی گئی تھی اس کی طرح غطلیوں کا مجموعہ نہ ہوگا۔ آن لائن کلاسز سے ان طلبہ کی محرومی جن کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں اپنی جگہ حقیقت ہے اور اس حوالے سے کئی بار کالم میں تذکرہ بھی ہوچکا ہے اب بھی بہت سارے طالب علموں کے اسی مسئلے کے بارے میں برقی پیغامات میرے سامنے ہیں اس کے علاوہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے وہاں کے طالب علموں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ڈی ایس ایل اور انٹرنیٹ کے دیگر ذرائع سے مہنگی ہونے کی بناء پر استفادہ نہیں کر سکتے ان کا کہنا ہے وہ ڈھائی تین ہزار روپے ماہوار انٹرنیٹ کی سروس حاصل نہیں کر سکتے۔ پی ٹی سی ایل اور دیگر سیلولر کمپنیوں کو اگر حکومت اس امر کا پابند بنائے کہ وہ طالب علم کے کوائف کی تصدیق کیساتھ ان کو سٹوڈنٹس پیکج دیں قبل ازیں پی ٹی سی ایل کا ہزار بارہ سو روپے پر سٹوڈنٹس پیکج ہوتا تھا لیکن بعد میں اسے ختم کر دیا گیا اسے بحال کیا جاسکتا ہے نیز حکومت انٹرنیٹ پر ٹیکس وغیرہ کے طورپر فی صارف جو پانچ چھ سو روپے وصول کرتی ہے وہ فیڈرل گورنمنٹ اور جہاں جہاں صوبائی حکومتیں بھی اپنا حصہ وصول کرتی ہیں وہ معاف کیا جائے تو انٹرنیٹ کے نرخ خودبخود کم ہو سکتے ہیں تاکہ طالب علم اور عام شہری جو اس سہولت کی گرانی کے باعث محروم ہیں اس کا فائدہ اُٹھا سکیں۔ اتفاق سے آج کا کالم تعلیم نامہ ہوگیا ہے، اگلا واٹس ایپ بھی تعلیمی ہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے آج کل تمام تعلیمی ادارے بند ہیں، تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے صنعتی محنت کشوں کے بچوں اور بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ اور دیگر معاون تدریسی سٹاف کے ماہ اپریل اور مئی2020کی تنخواہوں سے کنونس الاؤنس کی کٹوتی کی گئی ہے جو سراسر ناانصافی اور ظلم ہے۔ یہ تعلیمی ادارے ورکنگ فوکس سکولز کے نام سے تمام اضلاع میں صنعتی محنت کشوں کی بچیوں اور بچوں کو گھر کی دہلیز پر اعلیٰ تعلیم کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ ورکنگ فوکس سکولز تمام اضلاع میں ورکز ویلفئر بورڈ خیبر پختونخوا کے زیرنگرانی کام کر رہے ہیں۔ متاثرہ اساتذہ اور عملہ نے کنونس الاؤنس کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے میرے خیال میں کنونس الاؤنس کی کٹوتی خلاف قانون نہیں اب تک تو ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ملازمین کی تنخواہوں کے مسائل تھے وہ تو اچھا ہوا کہ تنخواہوں کی ادائیگی ہوگئی جس پر قناعت کی جائے تو بہتر ہوگا۔
محولہ تمام برقی پیغامات سے یہ بات واضح ہے کہ تعلیم کا حکومتی ترجیحات میں سرفہرست ہونا صرف دعویٰ ہی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے طلبہ اور اساتذہ ہی نہیں پورا تعلیمی نظام مسائل اور مشکلات کا مجموعہ ہے جس پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے، معیار تعلیم میں بہتری لانا ہو یا شرح خواندگی اور تعلیم کی شرح میں اضافہ کرنا سارے معاملات توجہ طلب ہیں۔ حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو زمینی حقائق کے مطابق پالیسیاں مرتب کرنے اور اُن پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ذمہ داریوں سے اب زیادہ دیر احتراز کی گنجائش نہیں۔
قارئین اپنی شکایات اور مسائل اس نمبر 03379750639 پر میسج اور وٹس ایپ کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی