2 222

اور اب مائنس تھری کی گونج

ایسے میں ملک میں مائنس ون کی باتیں ہور رہی تھیں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد ریکارڈ درست کرنے سامنے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے مائنس ون نہیں مائنس تھری ہوگا اور سسٹم کی بساط ہی لپیٹ دی جائے گی۔ انہوں نے مائنس تھری کی بات کرکے مائنس ون کی بات کرنے والی اپوزیشن کا ریکارڈ درست کیا تو لگے ہاتھوں انہوں نے وزیراعظم عمران خان کا ریکارڈ بھی یہ کہہ کر درست کیا کہ ہم آخری چوائس نہیں ہیں۔ چند دن قبل وزیراعظم نے ہمارے سوا کوئی چوائس ہی نہیں کی بات کی تھی مگر دوسرے ہی دن انہوں نے اپنی اس سوچ سے رجوع کر لیا تھا۔ عین ممکن ہے عمران خان بھی وہی بات کہنا چاہ رہے ہوں جو شیخ رشید نے کی ہے کہ جمہوری سسٹم میں ہم آخری چوائس ہیں۔ شیخ رشید نے مائنس تھری کی بات کرکے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلپزپارٹی کو بتا دیا کہ اب اگر کوئی گیا تو وہ تحریک انصاف کی حکومت ہی نہیں ہوگی بلکہ قطار میں کھڑی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بھی ہوں گی۔ یوں لگتا ہے اپوزیشن جماعتیں عمران خان سے اس قدر اُکتاہٹ اور تنگی کا شکار ہیں کہ انہیں سسٹم کی بساط لپیٹ جانا بھی غنیمت لگتا ہے، خواجہ آصف کی قومی حکومت کی بات اور بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا کہ عمران خان کے سوا ہر آپشن قبول ہے اسی اُکتاہٹ کا اظہار ہے۔ ماضی میں جب بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی لڑتے لڑتے تھک جاتیں تو وہ کسی تیسرے مسیحا کی آمد کا انتظار کرنے لگتیں۔ کبھی وہ ریفری کو ہاتھ سے پکڑ کر میدان میں لاکر کھیل کے خاتمے کی سیٹی بجوا دیتی۔ کسی ایک فریق کا کام خراب کرنے والی سیٹی کی آواز دوسرے فریق کو کوئل کی کوک اور صبح کے پرندے کی چہچہاہٹ سے زیادہ بھلی لگتی کیونکہ اس میں ان کی نجات کا پہلو ہوتا تھا۔ نوے کی پوری دہائی اسی مشق میں گزر گئی یہاں تک کہ جب جنرل مشرف نے بارہ اکتوبر کو پورے سسٹم کی بساط ہی اُلٹ دی تو اس سسٹم کی دوسری حصہ دار پیپلزپارٹی نے اس اقدام کو باعث خیر وبرکت قرار دے کر لڈو بانٹ لئے۔ گویا کہ سیاسی لوگ ایک دوسرے سے قدر تنگ آجاتے ہیں اور حبس محسوس کرتے ہیں کہ لُو کی دعائیں مانگنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ تو جمہوریت کی ماں برطانیہ والوں کا بھلا ہو جنہوں نے ماضی کے متحارب فریقوں کو میثاق جمہوریت پر آمادہ کیا۔ میثاق جمہوریت کے بعد یہ رویہ کسی حد بدلا مگر بادل نخواستہ اب ایک تیسرا فریق حکمران ہے جو ان دونوں قدیم اور روایتی جماعتوں کی مخالفت کے یک نکاتی ایجنڈے پر طاقت میں آیا ہے۔ اس لئے دونوں جماعتیں ایک بار نوے کی دہائی میں پہنچ چکی ہیں جہاں فریق مخالف کا کھیل خراب کرنے کیلئے انہیں ریفری کو ہاتھ سے پکڑ کر میدان میں لانا پڑ رہا ہے تاکہ سیٹی کی آواز بلند ہو اور فریقین کو پکڑ کر میدان سے باہر نکال دیا جائے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ ریفری پر منحصر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے حالات سے کچھ بھی نہیں سیکھا انہیں وہی جمہوریت گوارا ہے جس میں وہ خود کلی طور پر مالک ومختار ہوں یا کم ازکم سب سے بڑے شراکت دار ہوں۔ اس کے سوا جمہوریت کی جو بھی شکل ہو اس سے انہیں آمریت سمیت کوئی بھی انتظام اچھا اور بھلا لگتا ہے۔ ملک میں جمہوریت کے پودے کے جڑ نہ پکڑنے کی بہت سی وجوہات میں اس طرزفکر کا گہرا دخل ہے۔ انا ولاغیری کا یہ رویہ کسی تیسرے فریق کیلئے گنجائش اور قبولیت پیدا کرتا ہے اور نتیجہ کسی ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی طرف ”عزیز ہم وطنو السلام علیکم” کہنے کی صورت میں برآمد ہو تا ہے۔ عزیز ہم وطنوں کو وعلیکم سلام کہنے کی بھی فرصت نہیں ملتی اور فوجی حکمران ملک کا انتظام اور باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں۔ جو فریق حالات سے تنگ وبیزار ہوتا ہے وہ ہفتۂ نجات مناتا ہے اور پھر اسے سسٹم سے آؤٹ ہوجانے کے نقصانات اور حالات کے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوتا ہے تو ایک ٹرک سجانے کی تیاریوں کا شغل اپنا لیا جاتا ہے۔
مائنس تھری یعنی تین بڑی جماعتوں کا مائنس ہو جانا کوئی افسانہ بھی نہیں ایک حقیقت ہے۔ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کی حکومتیں ازمنہ وسطیٰ کا قصہ نہیں ابھی کل ہی کی بات ہے۔ ایک تسلسل کیساتھ عوام دونوں جماعتوں کی حکومتوں کی کارکردگی دیکھ چکے ہیں۔ یہ عجب مذاق ہوگا کہ تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی یا دونوں سے بدل دیا جائے۔ عمران خان کو شاہد خاقان عباسی یا راجہ پرویز اشرف سے بدل دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سسٹم ڈلیور کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے۔ مافیاز نے اس قدر طاقت پکڑ لی ہے کہ وہ حکومت کا پہیہ آزادی سے رواں ہونے ہی نہیں دے رہے۔ ایک حکومت کے اندر درجنوں حکومتیں اور ایک ریاست کے اندر سینکڑوں ریاستیں جنم لیکر اپنے پنجے مضبوط کر چکی ہیں۔ ایک کے بعد دوسری حکومت ان کے آگے بے بسی کی تصویر بنتی ہے۔ اچھا تو یہ ہے کہ کوئی مائنس ہی نہ ہو جیسے تیسے معاملہ چلتا رہے وگرنہ مائنس تھری نوشتۂ دیوار ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ حکومت والے حکومت کریں گے اور سیاستدانوں کا مقدر ایک ٹرک کو آراستہ اور پیراستہ کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا