5 129

مندر کی تعمیر۔۔۔ ایک فکری جائزہ

پاکستان کے ضمن میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ عام قومی ریاستوں کی طرح کی ایک قومی ریاست نہیں ہے، پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے، جب ہم نظریاتی ریاست کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پاس رہنمائی کیلئے وہ طرزعمل ہے جو ریاست کے ضمن میں نبی کریمۖ نے اختیار کیا اور آپۖ کی رحلت کے بعد خلفائے راشدین نے ریاست کے معالات کو جس طرح چلایا۔ نبیۖ کی حیات طیبہ میں جس ریاستی بندوبست کو پاکستان کے تناظر میں منطبق کیا جا سکتا ہے وہ آپۖ کی مدینہ آمد کے بعد بننے والی وہ شہری ریاست ہے جو میثاقِ مدینہ کے نتیجے میں ظہورپذیر ہوئی۔ میثاق مدینہ ریاست کے شہریوں کے مابین ایک عمرانی معاہدہ تھا۔ اس میثاق کی شق25 میں بنی عوف کے یہودیوں کو مسلمانوں کیساتھ ایک اُمت (قوم) قرار دیا گیا ہے اور لکھا گیا ہے کہ یہودیوں کیلئے ان کا دین اور مسلمانوں کیلئے ان کا دین ہے۔ پاکستان کا ریاستی بندوبست اپنی اقلیتوں کے حوالے سے بالکل اس شق کے مطابق ہے چنانچہ قائداعظم نے11اگست1947ء کو آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہی خیالات کا اظہار کیا کہ آپ اپنے مندروں میں جانے کیلئے آزاد ہیں اور آپ اپنی مساجد میں جانے کیلئے آزاد ہیں’ تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین، بعدازاں آئین پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ اور مذہبی آزادی کو بنیادی حق کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل20 میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ بنیادی حقوق کے تحت آئین میں دئیے گئے دیگر آرٹیکلز میں صراحتاً یہ بات موجود ہے کہ کسی شہری سے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہوگا یعنی پاکستان کے شہری خواہ ان کا تعلق کسی مذہب سے ہو وہ آئین پاکستان کے تحت مساوی حیثیت کے حامل پاکستانی شہری ہیں۔ اب آجائیے اس پہلو کی طرف کہ پاکستان جیسی اسلامی نظریاتی ریاست کے دارالحکومت میں مندر کی تعمیر ریاستی بندوبست کے تحت کی جا سکتی ہے۔ اس سوال میں دو ضمنی سوالات پوشیدہ ہیں۔ اول’ کیا مندر کی تعمیر کی اجازت ہونی چاہئے؟ دوم’ کیا ریاست کے خرچے پر مندر تعمیر کیا جا سکتا ہے؟ ایک بنیادی نکتہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ بات پہلے سے موجود کسی مندر کی تزئین وآرائش یا پرانے ڈھانچے کی تعمیر کی نہیں ہو رہی بلکہ یکسر ایک نئے مندر کی تعمیر کے حوالے سے ہو رہی ہے لہٰذا یہ استدلال کہ حکومت گوردوارے (کرتارپور) پر حکومتی وسائل خرچ کر سکتی ہے تو مندر یا کلیسا پر یہاں اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔ پرانے کئی مندر وفاقی دارالحکومت میں موجود ہیں اور اسی طرح راولپنڈی میں بھی ہندوؤں کے مندر ہیں جہاں ہندو آزادانہ اپنی عبادت کرتے ہیں۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ جڑواں شہروں میں ہندو آبادی کے لحاظ سے مندروں کی تعداد ضرورت سے زیادہ نہیں تو اس کے مطابق ضرور ہے۔ اسلام آباد میں ہندوؤں کی تعداد ڈھائی سو سے زیادہ نہیں ہے جبکہ راولپنڈی کے دو ڈھائی سو گھرانے ہیں جن کیلئے راولپنڈی میں موجود تین مندر لالکڑتی’ گریسی لائن اور صدر میں واقع ہیں۔ اس پہلو کو ذہن میں رکھئے اور سمجھ لیجئے کہ اسلام آباد میں جب میاں نواز شریف کی حکومت میں مندر کیلئے پلاٹ الاٹ کیا گیا تو ضرورت سے ہٹ کر یہ معاملہ سیاسی نوعیت کا تھا۔ میاں نواز شریف کافی عرصے سے ہندوستان کو خوش کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ وزیراعظم بننے سے قبل سیفما کی تقریب میں ان کا بیان کہ ”جس خدا کی عبادت آپ کرتے ہیں ہم بھی اُسی خدا کی عبادت کرتے ہیں’ بس درمیان میں یہ ذرا سی لکیر آ گئی ہے” اُس ذہنیت کو سمجھنے کیلئے کافی ہے جس کے تحت وفاقی دارالحکومت میں مندر کیلئے زمین الاٹ کی گئی۔ اگر معاملہ ضرورت کا ہو اور ہندو آبادی پاکستانی شہری کی حیثیت سے آئین میں دئیے گئے اپنے بنیادی حق کو استعمال کرتے ہوئے کسی مناسب جگہ پر مندر تعمیر کرنا چاہیں تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ معاملہ ضرورت کا نہیں ہے۔ اسلام آباد میں پہلے سے تین مندر کری شہر’ سیدپور اور راول ڈیم میں موجود ہیں۔ سیدپور کا مندر شہر کے بالکل قریب ہے اور اسلام آباد میں موجود ہندو آبادی جو زیادہ تر سندھ سے یہاں شفٹ ہوئی ہے کی ضرورت پوری کرنے کیلئے کافی ہے۔ میں اس بات سے بھی آگاہ ہوں کہ سی ڈی اے کو ابتدائی طور پر جو درخواست دی گئی وہ مندر کی تعمیر کیلئے نہ تھی بلکہ سیکٹر ایچ ایٹ میں کمیونٹی سنٹر اور شمشان گھاٹ بنائے جانے کے متعلق تھی۔ کسی کالم میں مکمل معلومات قارئین کیساتھ شیئر کروں گا۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ معاملہ پاکستانی ریاست کے شہری ہونے کے ناطے بنیادی حق کا نہیں ہے چونکہ یہ ضرورت کا معاملہ نہیں ہے لہٰذا اس بحث میں جانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ اسلامی ملک میں ریاست غیرمسلم عبادت گاہوں کیلئے وسائل فراہم کر سکتی ہے یا کہ نہیں۔ عصرحاضر کے جید فقیہہ مفتی تقی عثمانی کا استدلال ہے کہ غیرمسلم پاکستان میں اپنی عبادت گاہوں کی تعمیرنو کر سکتے ہیں (باقی صفحہ 7)

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ