logo 38

مشرقیات

امام ابو یوسف اپنے وقت کے قاضی القضاة(چیف جسٹس)تھے۔ ایک مرتبہ کوئی شخص آپ کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا ۔حضرت! میں نے آپ کی جانب سے ایک فرضی خط لکھ کر فلاں صاحب سے اتنی رقم حاصل کرلی ہے ، اب وہ شخص مجھ سے مانگتا ہے، ازراہِ کرم آپ مجھے اس سے چھٹکارا دلایئے۔ امام ابو یوسف نے بات سنی تو فوراً اس شخص کے گرفتار کرنے اور جیل میں ڈال دینے کا حکم دیدیا اور حکم دیا کہ جب تک رقم ادا نہیں کروگے ، اس وقت تک جیل سے رہائی نہیں مل سکے گی۔اس شخص نے عرض کیاحضرت! میں نے ایک بار اسی طرح آپ کے استاد امام اعظم ابو حنیفہ کی طرف سے بھی ایک فرضی خط لکھ کر ایک شخص سے روپے حاصل کر لئے تھے ، مگر جب میں نے ان کو اس کی اطلاع دی تو انہوں نے وہ روپیہ میری طرف سے ادا کر دیئے۔ امام ابو یوسف نے فرمایا بھائی ! میں امام ابوحنیفہ نہیں ہوں ، وہ ایک جلیل القدر عالم اور فقیہہ تھے ، لوگ ان کے علم وفضل کی وجہ سے احترام اور اعزاز کرتے تھے، اسی وجہ سے ان کے نام پر روپیہ دے دیتے تھے اور میں حکومت کا ایک ذمہ دار عہدیدار ہوں، اس لئے اس بات کا واضح امکان موجود ہے جس کو تم نے میری طرف سے خط لکھا ہو ، وہ روپیہ نہ دینا چاہتا ہو، مگر میرے خوف سے اس نے دے دیئے ہوں ۔ایک روز تک اس کو جیل میں بند کر کے مایوس رکھا ، جب اسے واقعی اپنی غلطی پر تنبیہہ ہوگئی اور امام ابو یوسف اس کی ندامت کو بھانپ گئے تو دوسرے روز اس کو اپنے پاس بلایا اور اسے فرمایا کہ جس سے تم نے روپے لئے تھے ، میں نے اسے واپس کردیئے ہیں اور تم کو رہا کر رہا ہوں ، خبردار! اب اگر وہ شخص دوبارہ وہ رقم بطیب نفس بھی تمہیں واپس کر ے تو ہر گز نہ لینا ، جائو آئندہ ایساہر گز نہ کرنا۔ حسن بن ابی مالک کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام ابو یوسف نے فرمایا: میں بیمار پڑا اور اس بیماری نے میرے حافظہ پر چھاپا مارا ۔ بیماری کی شدت کی وجہ سے جو کچھ بھی یاد تھا ، سب بھول گیا ، سوائے علم فقہ کے ۔ سوال کیا گیا :حضرت یہ کیونکر ؟ امام ابو یوسف نے فرمایا: علم فقہ کے سوا جو دوسرے علوم میرے پاس تھے، ان کی بنیاد صرف قوت حافظہ پر تھی اور وہ شدت مرض کی وجہ سے جواب دے گئی تو وہ علوم بھی جاتے رہے اور علم فقہ تو میرا جانا پہچانا علم تھا،ابتدائے شعور سے آج تک اس کے ساتھ تلبس رہا۔ علم فقہ میں میری مثال ایسی ہے ، جیسے کوئی شخص کئی سال تک اپنے وطن سے غیر حاضر رہے ، پھر اس کے بعد آئے تو کیا وہ اپنے گھر کا راستہ بھول جائے؟ بلکہ قدم خود بخود اس طرف بڑھیں گے ۔ (حسن التقاضی،ص،54)

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار