p613 129

احتساب کو بے وقعت نہ کیا جائے

وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے احتساب وامور داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کیخلاف 55 والیم اور پچیس ہزار دستاویزات پر مشتمل تمام شواہد ایک ریفرنس کی صورت میں لاہور کی احتساب عدالت میں جمع ہو چکے ہیں، اس سے اچھا ریفرنس نیب کی تاریخ میں آج تک نہیں بنا۔انہوں نے الزامات کی ایک لمبی چوڑی فہرست بھی پیش کی،شہباز شریف نے نیب کی جانبداری پر سوال اُٹھایا ہے ان کا کہنا تھا کہ چینی اور ادویات اسکینڈل کا کیا ہوا؟عمران خان کیخلاف ہیلی کاپٹر اسکینڈل کا کیا بنا؟ اگر فیس نہیں کیس دیکھتے ہیں تو دودھ کادودھ پانی کا پانی ہونا چاہیے تھا، فیس نہیں کیس دیکھنے کا دعویٰ کرنے والے کیوں چپ ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ بی آر ٹی میں کروڑوں نہیں، اربوں کی کرپشن ہوئی، میں نے منصوبوں پر ایک ہزار ارب روپے بچائے، پنجاب میں57کلومیٹر کے3میٹرو منصوبے100ارب میں بنے اور پشاور کی27کلومیٹر بی آر ٹی 100ارب میں بنی۔ملک میں سیاسی ماحول کی گرمی کیساتھ ایک مرتبہ پھر احتساب اور نیب کی مساعی میں بھی تیزی آگئی ہے، ہر دو جانب دعوے اور سوالات ہیں، حقیقت ان دونوں کے درمیان کہیں پوشیدہ ہے جسے عدالت میں ہی بے نقاب ہونا ہے اور عدالت ہی میں قانون کے مطابق ہونے والے فیصلوں کے بعد ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے کی اُمید ہے۔ وطن عزیز میں احتساب نیب اور سیاست کی فعالیت وخفتگی کے معمولات اگر ایک دوسرے سے جڑے نہ ہوتے اور حقیقی معنوں میں احتساب کا عمل جاری ہوتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اگر ہم آخری چند سالوں کے احتسابی عمل اور نیب کے مقدمات کا جائزہ لیں تو جو بڑے بڑے سیاستدان کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار ہو چکے مقدمات چلے ان پر اگر عدالتوں میں الزامات ثابت ہوچکے ہوتے اور احتساب کا عمل ٹھوس اور کسی آمیزش کا شکار نہ ہوتا تو آج ان رہنمائوں کو سیاست میں فعال ہونے کی بجائے جیل کی کوٹھٹریوں میں قید کاٹتے رہنا چاہئے تھا،ان کی املاک کی ضبطگی اور جرمانوں کی صورت میں قومی خزانے میں کروڑوں روپے جمع ہونے کی ضرورت تھی، آج وہ عدالتوں سے رہائی پا کر خود کو قصوروار ماننے ہی کی تیار نہیں بلکہ عوام میں بھی احتساب اور نیب کے مقدمات پر سوالات کا باعث ہے۔شب وروز محنت اور ملک وبیرون ملک سے اکٹھی کی گئی دس جلدوں پر مبنی رپورٹ الف لیلیٰ کی کہانیاں تھیں یا حقیقت اس بارے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن کہانی کے اصل کردار کم از کم اس وقت کی کال کوٹھڑی میں قید نہیں، اس طرح کی درجنوں مثالوں کی موجودگی میں نیب کا ایک مرتبہ پھر تحرک اور مختلف سیاستدانوں کو کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کی تگ ودوسے اس وقت تک اُمید یں وابستہ نہیں کی جاسکتیں جب تک عدالت میں ٹھوس شواہد پیش کر کے ان عناصر کو سزائیں نہ دلوائی جائے اور قومی خزانہ میں کچھ رقم جمع نہ ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محولہ صورتحال میں ملک میں احتساب کا عمل جس طرح مذاق بن کر رہ گیا ہے اس سے جملہ بدعنوان عناصر خواہ وہ سیاست، بیوروکریسی اور جس جس شعبے میں بھی ہوں ان کی عبرت کا کوئی سامان نہ ہونے اور قانون کی کمزور گرفت کے باعث اپنی سرگرمیوں سے باز نہیں آتے۔بار بار کے دعوئوں کے باوجود عملی طور پر کچھ نہ ہونے سے احتساب کا عمل مذاق بن کر رہ گیا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ احتساب کے عمل کو سیاست زدہ نہیں شفاف، سخت کڑا اور بے رحم بنایا جائے اور بد عنوان عناصر کو سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نہ ملے، دوسری جانب لوگ دودھ کے دھلے ہونے کے دعویدار ہیں یہ درست ہے کہ ان پر عدالت میں ابھی الزامات کا ثابت ہونا باقی ہے لیکن عدالت میں اپنی بے گناہی اور بد عنوانی کے الزامات سے بری ہونے کیلئے ان کے پاس بھی کوئی ٹھوس ثبوت دستیاب نہیں ہوتے جن کی بناء پر عدالت ان کو باعزت بری کر ے اور وہ عدالت کو مطمئن کرسکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے وطن عزیز میں احتساب کا ایک ایسا شفاف عمل شروع کیا جائے اور ایسے قوانین بنائے جائیں جس میں کسی پرنہ تو جھوٹا الزام لگایا جاسکے اور نہ ہی کوئی بااثر شخص قانونی کمزوریوںاور باریکیوں کا فائدہ اُٹھا کر بچ سکے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار