p613 129

اس باب کو بند کرنے کی ضرورت ہے

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی آئندہ قومی سلامتی سے متعلق یاکسی اورمعاملے پر ایسے حساس اجلاس میں شریک نہیں ہوگی۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ان کیمرہ اجلاس کی تفصیلات سامنے نہیں لائی جاتیں لیکن کچھ غیر ذمہ دار لوگوں نے بولنے پرمجبورکیا ۔ان کیمرہ اجلاس کی باتیں کرنے والا جس کا بھی ترجمان ہے انہیں چاہیے کہ اُسے چپ کرائیں۔پاک فوج کی قیادت اور سیاسی رہنمائوں کے درمیان رابطے اور ملاقات اور سیاسی معاملات اور روابط کے حوالے سے جاری بحث کسی کے بھی مفاد میں نہیں، ملاقاتوں سے قطع نظر اب بعض ایسے معاملات جو سیاسی رہنمائوں سے ملاقات کے باوجود سیاست اورسیاسی حدود میں نہیں بلکہ ملکی وریاستی امور اورمعاملات پر تبادلہ خیال کی ضرورت ہوتی ہے اس کے ایشو بننے کے بعد اب ایسے معاملات پر بھی ملاقات اور گفتگو مشکل امر بن جائے گی یہ سوال بہرحال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس اہم ملاقات میں وزیراعظم کیوں موجود نہیں تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عسکری قیادت اور سیاستدانوں کے ایسی ملاقات میں کوئی حرج نہیں جس میں ملکی امور کے حوالے سے تبادلہ خیال اور مشاورت ہو۔فوج بھی حکومت کا حصہ اور ماتحت ادارہ ہے اور بہت سارے معاملات میں ان کا نکتہ نظر اہمیت کا حامل اور ضروری ہوتا ہے لیکن اس سے ہٹ کر ملاقات اگر خالص ذاتی نوعیت کی نہیں تو پھر اسے سیاسی گردان کر اسے میڈیا میں اُچھالنا ملاقاتیوں کے حق میں بہتر نہیں یا تو ملاقات سے ہی احتراز برتا جاتا یا پھر اخفا برتا جاتا۔ سیاستدان تو ایک دوسرے پر خفیہ ملاقاتوں کا الزام لگاتے رہتے ہیں جس کی کبھی کسی جانب سے پوری طرح تصدیق نہیں ہوئی، یہ پہلا موقع ہے کہ راز کو راز رہنے دیا گیا اس سے فی الوقت جو بھی تاثر پھیلا کم ازکم ملاقاتوں کی تو تصدیق ہوگئی، اس سے عدم اعتماد کی ایک ایسی اینٹ رکھ دی گئی کہ آئندہ احتراز اور پرہیز برتنے کا وتیرہ اختیار کیا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاستدان تو بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا والی کیفیت کے حامل ہوتے ہیں ان کا پینترا بدلنے کا ریکارڈ ہوتا ہے اور ان کا یہ وتیرہ ہوتا ہے بہتر ہوگا کہ اس موضوع کو اب بند کردیا جائے اور کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دی جائے جومزید عدم اعتماد کاباعث بنے۔
بی آرٹی کا معمہ
وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و اعلیٰ تعلیم کامران بنگش نے کہا ہے کہ بی آر ٹی ،بس کمپنی کی جانب سے 25 اکتوبر 2020سے تمام بسیں دوبارہ چلائی جانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔معاون خصوصی کی اس تصدیق سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ بسوں کی خریداری کے وقت یہاں کے موسمی حالات اور متوقع صورتحال کے حوالے سے ماہرین سے فنی وتکنیکی رائے طلب کرنے کی زحمت نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی اس صورتحال کی کمپنی سمیت کسی کو توقع تھی جتنی مدت بی آرٹی کی بحالی کا بتایا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس دوران بسوں میں بڑی تبدیلیاں کی جائیں گی بعض اخباری اطلاعات کے مطابق ایک سرکاری رپورٹ میں بسوں کے سال سے زائد عرصے تک سخت گرمی اور دھوپ میں بیٹریوں کی چارجنگ کیلئے ضروری امور سے سخت غفلت برتنا بیٹریوں کی خرابی اور موجودہ صورتحال کاباعث بنا خوش آئند امر یہ ہے کہ ہفتہ عشرہ بعد عوام کو کم ازکم اس امر کے حوالے سے اعتماد میں لیا گیا کہ بی آرٹی کی سروس کب تک بحال ہوسکے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مزید معاملات کی تحقیقات کے بعد حکومت غفلت وذمہ داری کے تعین کرنے کی بھی ذمہ داری نبھائے، پچیس اکتوبر کے بعد گرمی کی شدت ختم ہونے سے بسوں میں آگ لگنے کا خطرہ ویسے بھی کم ہونے کی توقع ہے، شدید گرمی کے موسم کے مطابق بسوں میں تکنیکی تبدیلی کا جو عندیہ دیا گیا ہے اسے یقینی بنایا جائے اور اس امر کا امکان باقی نہ رہے کہ آئندہ کوئی ایسا واقعہ سامنے آئے جس سے ایک مرتبہ پھر خدانخواستہ لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں اور حکومت کو راست اقدام کرنا پڑے۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی کی برہمی
صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں ایم ٹی آئی لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے سال 2015-16کے آڈٹ پیروں کے جائزے پرسپیکر مشتاق احمد غنی کا اس بات پر شدید تحفظات کا اظہار سنجیدہ معاملہ ہے۔غفلت وبے قاعدگیوں اور رقم کا ضیاع اور مالی معاملات میں عدم شفافیت ایسے امور نہیں جن کو نظر انداز کیا جاسکے، آئے روز لیڈی ریڈنگ ہستال کے حوالے سے جس قسم کی رپورٹیں سامنے آرہی ہیں اس کا تقاضا ہے کہ اصلاح احوال کیلئے سنجیدہ اقدامات اور اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں کی جائیں اور ہسپتال کا انتظام ایسے ہاتھوں میں دیا جائے جو ہسپتال کا نظم ونسق چلانے اور اس اہم مرکز علاج کو سنبھالنے کا فریضہ بخوبی سر انجام دے سکیں۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت