2 289

نہ تھا وہ سبق ایسا جو رویوں نے سکھایا ہے

اپنی پہچان یا تشخص قائم رکھنے کیلئے ہم اپنی ادبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ کبھی محفل مشاعرہ برپا کرتے، کبھی تنقیدی نشست کا اہتمام ہوتا اور کبھی کسی نامور ادیب یا شاعر کیساتھ شام پذیرائی منانے لگتے
سیکھے ہیں مہہ رخوں کیلئے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملا قات چاہئے
کے مصداق ہم سے نچلا بیٹھا نہیں جارہا تھا، سو ہم نے ٹھان لی نوآموز شاعروں کے درمیان ایک معرکہ خیز مقابلہ کروانے کی اور نکل کھڑے ہوئے حضرت بھولے باچھا کو ساتھ لیکر نوآموز شاعروں کے درمیان مقابلہ کے مہمان خصوصی کی تلاش میں، بھولے باچھا نے ہمیں ایک وزیر کبیر کو بلانے کا مشورہ دیا کہ بڑے دھنی مان ہیں، جب اور جہاں کہیں سجنے والی کسی علمی یا ادبی محفل میں جاتے ہیں تو اس تنظیم کو اچھی خاصی رقم دینے کا بھی اعلان کر دیا کرتے ہیں،سو ہم نے آنکھیں موند کر مان لیا اور بھولے باچھا ہی کو کہہ دیا کہ وہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے وزیر موصوف سے ملاقات کیلئے وقت مانگ لے تاکہ ہم انہیں اپنی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر بلانے کیلئے ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کرلیں، بھولے باچھا نے وزیر موصوف سے ملاقات کرنے کیلئے اپنے اثر ورسوخ کے بل بوتے پر وقت بھی حاصل کر لیا اور ایک عدد تھری پیس سوٹ بھی خرید لیا، کتنا اچھا لگ رہا تھا وہ تھری پیس سوٹ پہنے، وہ جب اپنی گاڑی میں مجھے لینے میرے غریب خانے پر آیا تھا تو، لگتا تھا اس نے چہرے پر رنگ نکھارنے والی کریم بھی لگا رکھی تھی اور اس کے ہونٹوں کی سرخی بتا رہی تھی کہ اس نے اپنی امی کے میک اپ باکس میں سے ہلکے رنگ کی لپ سٹک بھی اپنے ہونٹوں کی لالی کو اُجاگر کرنے کیلئے لگا رکھی تھی، سفید شرٹ، نیلے رنگ کی نیک ٹائی اور نیلے رنگ کا تھری پیس سوٹ، یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی وزیر کبیر سے ملنے نہ نکلا ہو، کسی خوبرو حسینہ کا دولہا بننے یا اس کو منگنی کی انگوٹھی پہنانے نکلا ہو، واہ واہ، آج تو قیامت ڈھارہے ہو تم، میں نے بھولے باچھا کو سج دھج دیکھ کر کہا اور پھر اس کی موٹر میں اس کا اک اکیلا براتی بن کر بیٹھ گیا، بڑے تپاک سے ملے وزیر موصوف جب ہم ضابطوں کی کارروائی مکمل کرکے ان کے دفتر میں پہنچے، ہمارے استقبال میں کھڑے ہوگئے اور اپنے سامنے والی کرسیوں کی جانب اشارہ کرکے کمال مہربانی یا انداز مہمان نوازی سے ‘تشریف رکھئے کا جملہ دہرا کر اپنی مسند پر تشریف فرما ہوگئے، کیسے ہیں آپ؟ انہوں نے یوں کہا جیسے پوچھ رہے ہوں کہ کیسے آنا ہوا، جی ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے چند لمحے نکال کر ہمیں شرف بازیابی کا موقع دیا، میں نے ہینڈ بیگ کی زپ کھول کر وہ درخواست نکالی جو ان کی خدمت میں پیش کرنی تھی، اس وقت ان کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی کھڑے تھے، درخواست انہوں نے وصول کرلی، لیکن وہ درخواست لیکر جیسے ہی دروازے سے نکلنے لگے تو وزیر باتدبیر نے ان کو چائے بھجوانے کا کہہ دیا، ان سے گفتگو کے دوران ہمیں یوں لگا جیسے حضرت منسٹر ہماری باتیں سننے کی بجائے اپنی تقریر سنانے کے موڈ میں ہیں، سو ہم پروٹوکول کا خیال رکھتے ہوئے ان کے کارنامے سننے لگے، ایسے میں چائے کی کھنکتی پیالیاں بھی آگئیں اور پلیٹ میں رکھے بسکٹ بھی پہنچ گئے، وزیرگرامی کو تقریر جھاڑنے کے دوران نہ سہی، چائے پینے کے دوران اپنے منہ میں رکھی نسوار کو نکال باہر کرنا تھا، سو انہوں نے پانی کا گلاس منگوا کر منہ کوکنگھالنا شروع کردیا، خدا کا کرنا یوں ہوا کہ اس دوران ایک مسکین سی صورت والا دیہاتی حلیہ کا حامل عاجز سا بندہ وزیر موصوف کے دفتر کے دروازے میں آن کر کھڑا ہوگیا، شائد اس دیہاتی کا تعلق اس ہی گاؤں سے ہو، جہاں سے منتخب ہوکر وزیر موصوف اپنی مسند وزارت پر پہنچے تھے، وزیر موصوف ان کو ڈانٹ نہیں سکتے تھے کہ ان کے منہ میں نسوار صاف کرنے کیلئے پانی پڑا تھا، آپ اسے ”ہوں ہوں” کرکے ہاتھ کے اشارے سے چلے جانے کو کہنے لگے، لیکن زمین جنبش نہ جنبش گل محمد کے مصداق دروازے میں کھڑا وہ عاجز سی شکل والا دیہاتی ٹس سے مس نہ ہوا، تو وزیر کبیر کو بڑا غصہ آیا اور وہ اس عاجز سے بندے پر اپنا غصہ جھاڑتے ہوئے چیخ کر اپنی مادری زبان میں کہہ اُٹھے کہ ”کیا یہ حجرہ ہے جو تم منہ اُٹھائے چلے آتے ہو” لیکن افسوس کہ آپ اپنا جملہ پورا نہ کرسکے، کیونکہ ان کے بند منہ کا نسوار زدہ پانی عالم جلال میں منہ کھولتے ہی ایک دھار بن کر نکلا اور بھولے باچھا کی سفید شرٹ اور اس کے تھری پیس سوٹ پر نسواری رنگ کے تجریدی آرٹ کے داغ یا دھبے چھوڑ گیا اور بھولا باچھا آداب محفل کا خیال رکھتے ہوئے ٹشو پیپر سے وہ داغ یوں صاف کرنے لگا جیسے وہ کسی واشنگ پوڈر کا اشتہار بن کر کہہ رہا ہوکہ ”داغ تو بہت اچھے ہوتے ہیں” وزیر موصوف کی شخصیت اور ان کے منہ کی نسوار کے علاوہ سوٹڈ بوٹڈ بھولے باچھا کی سج دھج کو کتنا نقصان پہنچا اس کا اندازہ تو نہیں لگا سکا، البتہ لفظ حجرہ کے معنی جان کر میرے علم میں جو اضافہ ہوا، وہ شائد کسی کتاب کے مطالعہ سے بھی نہ ہو پاتا کیونکہ
سکھایا زندگی نے جو، کتابیں پڑھ کے جو سیکھا
نہ تھا وہ سبق ایسا جو رویوں نے سکھایا ہے

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے