3 195

اذانیں، کورس اور پرنسپل کا خط

مختلف قارئین کی مختلف چیزوں کے بارے میں اپنی اپنی آراء ہوتی ہے، بہت سے پیغامات چونکہ اجتماعی مفاد کے نہیں ہوتے اس لئے شامل کالم نہیں کئے جاتے، البتہ بعض مشاہدات کی بناء پر ایسے نکات پر لکھنے کی فرمائش ہوتی ہے کہ اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک قاری نے واقعی بڑی اہمیت کا حامل نکتہ اُٹھایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں مختلف مساجد سے دی جانے والی اذانیں سنائی دیتی ہیں، خاص طور پر فجر کے وقت تو دور سے اذان کی آوازیں آتی ہیں، اذان کی آواز سننا اور اس کا جواب دینا تو بہت بابرکت اور مبارک عمل ہے، اذان کا احترام باعث سعادت ونیکی ہے لیکن مختلف مساجد سے دو سے پانچ یا دس منٹ کے وقفے سے آذان ہونے کے باعث آذان ختم ہونے کا انتظار کیا جائے تو وضو کر کے مسجد پہنچتے پہنچتے جماعت کا وقت نکل جاتا ہے اور اگر وضو کرنے واش روم جائیں تو اذان کی بے حرمتی ہوتی ہے، اس مسئلے کے حل کیلئے اگر علمائے کرام آئمہ وموذن حضرات اپنے اپنے مساجد میں لگے چارٹ کے مطابق اذان کا ایک وقت مقرر کرلیں اور یکے بعد دیگرے اذان دینے کی بجائے ایک ہی وقت اذان دی جائے تو یہ اتفاق اور اتحاد کی صدا بن جائے گی اور نماز کی تیاری کرنے والوں کو بھی وضو کا وقت ملے گا۔ میرے خیال میں تجویز بڑی مناسب ہے جس پر علمائے کرام کو ضرور غور کرنا چاہئے، ایک ہی وقت اذان دی جائے اور بے شک نماز کہیں پندرہ منٹ قبل اور کہیں آدھے گھنٹے بعد ادا کی جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ اذان ایک وقت دینے کے بارے میں پورے ملک میں اتفاق ہو جائے اور ہر صوبہ، ضلع، تحصیل اور مقامی سطح پر بیک وقت اذان دی جائے تو مناسب ہوگا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے مطالعہ پاکستان میں ایم ایس کے طالب علم نے ایک ایسا مسئلہ بیان کیا ہے کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں اس قسم کے مسئلے کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی ایچ ای سی اور محکمۂ تعلیم کے حکام کو طلبہ کیلئے اس قسم کی مشکلات کا باعث بننے والا کوئی حکمنامہ جاری کرنا چاہئے۔ دیر لوئر سے طالب علم لیاقت نواز کے مطابق ان کو محولہ مضمون میں ایم ایس کا داخلہ دیا گیا لیکن ایچ ای سی نے مطالعہ پاکستان کے شعبے میں پی ایچ ڈی ٹیچرز کی کمی کے باعث داخلہ حاصل کرنے اور جاری کورس کے طلبہ پر بھی پابندی لگا دی ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔ جن طلبہ کو داخلے دئیے گئے ہیں ان کو کورس اور کام مکمل کرنے دیا جائے، یونیورسٹی اور ایچ ای سی طالب علموں کیلئے اساتذہ کی موجودگی اور فراہمی کو یقینی بنائے، اس کے بعد نئے طلبہ کو داخلہ نہ دینے یا پھر پی ایچ ڈی اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے مسئلے پر کام کیا جائے۔ اخلاقی اور قانونی طور پر طالب علم کا مؤقف درست ہے اگر مطلوبہ اساتذہ موجود نہ تھے تو یونیورسٹی نے طالب علموں کو داخلہ کیوں دیا اور ایچ ای سی نے ایسا ہونے کیوں دیا، پہلے ہی اس کا نوٹس کیوں نہ لیا گیا جب ایک بیج کو داخلہ دیا جا چکا یا تو ایچ ای سی اور یونیورسٹی ان طالب علموں کو کسی دوسری یونیورسٹی میں ایڈجسٹ کرلیں اور وہاں ان کیلئے سپروائزر کا بندوبست کرے یا پھر ایک سیشن کیلئے دیگر جامعات کے اساتذہ کی خدمات لیکر کورس مکمل کرایا جائے۔ طلبہ اگر عدالت بھی چلے جائیں تو بھی ان کی شنوائی کی توقع ہے، بہتر ہوگا کہ طلبہ کا وقت ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ درس وتدریس کی بات چل رہی ہے تو ایک قاری کا ارسال کردہ پیغام بھی شامل کئے دیتے ہیں ان کا پیغام کچھ اس طرح ہے کہ سنگاپور میں امتحانات سے قبل ایک سکول کے پرنسپل نے بچوں کے والدین کو خط بھیجا جس کا مضمون کچھ یوں تھا ”محترم والدین! آپ کے بچوں کے امتحانات جلد ہی شروع ہونے والے ہیں، میں جانتا ہوں آپ سب لوگ اس چیز کو لیکر بہت بے چین ہیں کہ آپ کا بچہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھائے لیکن یاد رکھیں یہ بچے جو امتحانات دینے لگے ہیں ان میں (مستقبل کے) آرٹسٹ بھی بیٹھے ہیں جنہیں ریاضی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں بڑی بڑی کمپنیوں کے ترجمان بھی ہوں گے جنہیں انگلش ادب اور ہسٹری سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ ان بچوں میں (مستقبل کے) موسیقار بھی بیٹھے ہوں گے جن کیلئے کیمسٹری کے کم مارکس کوئی معنی نہیں رکھتے، ان سے ان کے مستقبل پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ ان بچوں میں ایتھلیٹس بھی ہو سکتے ہیں جن کے فزکس کے مارکس سے زیادہ ان کی فٹنس اہم ہے۔ لہٰذا اگر آپ کا بچہ زیادہ مارکس لاتا ہے تو بہت خوب لیکن اگر وہ زیادہ مارکس نہیں لا سکا تو خدارا اس کی خوداعتمادی اور اس کی عظمت اس بچے سے نہ چھین لیجئے گا۔ اگر وہ اچھے مارکس نہ لا سکیں تو انہیں حوصلہ دیجئے گا کہ کوئی بات نہیں یہ ایک چھوٹا سا امتحان ہی تھا وہ زندگی میں اس سے بھی کچھ بڑا کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ہے اور طلبہ کو تو سال میں ایک دفعہ اس امتحان سے بطور خاص گزرنا پڑتا ہے، پہلے زمانے میں پاس اور فیل کی حد تک معاملہ تھا، اب نمبروں کی وہ دوڑ لگی ہے کہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ نوے پچانوے فیصد نمبر تو معمول بن چکے ہیں، معیاری کالجوں میں داخلہ نوے فیصد سے زیادہ نمبر والوں ہی کو ملتا ہے، اس ساری صورتحال سے طلبہ اور ان کے والدین کا متاثر ہونا فطری امر ہے، بعض طلبہ تو شدید مایوسی میں خودکشی تک کا ارتکاب کرتے ہیں، والدین کا دباؤ اور خود طالب علموں کی باہم مسابقت ایک خاص حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ناقابل برداشت حد تک نہیں ہونا چاہئے، کوئی ڈاکٹر اور انجینئر نہ بن سکے تو دنیا یہیں ختم نہیں ہوتی قسم قسم کے شعبے اور مواقع ہیں محنت کر کے ان سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔
قارئین اپنی شکایات 9750639 0337- نمبر پر میسج اور واٹس ایپ کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ