4 190

معلومات کی بدہضمی

انسانی فطرت بھی عجیب ہے بہت جلد یکسانیت سے اکتا جاتی ہے، انسان کا دل چاہتا ہے کہ کچھ نیا کرے، عام روٹین سے ہٹ کر کچھ مختلف کرے، آج کل دنیا بھر کے ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز کا چرچا ہے، ملکی سیاست میں رونما ہونے والے واقعات پر پرمغز تبصروں اور تجزیوں کیلئے ماہرین کو مختلف چینلز پر بلایا جاتا ہے یہ ذہن میں رہے کہ دوران تعارف ہر صحافی کو سینئر اور تجربہ کار ضرور کہا جاتا ہے شاید اینکر کی غرض وغایت یہ ہوتی ہے کہ سننے والوں پر اچھا اثر پڑے اور وہ ان کی باتیں سن کر متاثر ہوں۔ ٹی وی چینلز تو آج کی دنیا میں صبح کے ناشتے جیسی اہمیت اختیا ر کر چکے ہیں جس طرح صبح بیدار ہوتے ہی سب سے پہلے ناشتہ کیا جاتا ہے اسی طرح جب تک لوگ دو تین ٹاک شوز ملاحظہ نہ فرمالیں ان کے دن کا آغاز ہی نہیں ہوتا اور پھر دفتروں دکانوں میں بات چیت کرنے کیلئے کچھ مواد تو چاہئے ہوتا ہے اور پھر اپنی دانشوری کا اظہار بھی ضروری ہوتا ہے جب ہماری طرح ایک اوسط درجے کا پڑھا لکھا ٹی وی پر دو چار منجھے ہوئے تجربہ کار صحافیوں کے تبصرے سن لیتا ہے تو اس کے پاس حالات حاضرہ اور روزبروز سیاست کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر کہنے کیلئے بہت کچھ ہوتا ہے۔ اب وہ سارا دن مختلف محفلوں میں اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کی شان میں قصیدہ گوئی کرتا رہتا ہے، وطن عزیز میں جب پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات شروع ہوئیں تو ان میں ایک ترتیب تھی وہ زمانہ یاد آتا ہے تو دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی ہے اور ذہن میں خیال آتا ہے کہ اس وقت ہمارے پاس ٹی وی دیکھنے کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنے کو تھا لیکن اب اس کا کیا علاج کہ گزرے ہوئے زمانے کو بھلانا ہی پڑتا ہے۔ پی ٹی وی پر حکومت کی بے مثال کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا اور بس! اس میں سب سے بڑی قباحت یہ تھی کہ عوام تک حالات حاضرہ کی سچی تصویر نہیں پہنچتی تھی لیکن اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ عام آدمی خوش تھا کیونکہ راوی چین ہی چین لکھتا تھا آج جس طرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹھنی رہتی ہے سب اپنے اپنے مورچوں سے میزائل داغتے رہتے ہیں پہلے ایسے نہیں ہوتا تھا بات زیادہ سے زیادہ ایک آدھ مخالفانہ بیان تک ہی محدود تھی، آج ایک ایک منظر سینکڑوں دفعہ ٹی وی سکرین پر دکھایا جاتا ہے صاحبان اقتدار اور اپوزیشن کی ساری کہانیاں سامنے آجاتی ہیں اور پھر لوگ مزے لے لیکر سارا دن ان پر تبصرے کرتے رہتے ہیں جس طرح آج آئے دن مہنگائی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اشیاء کی چیزیں صبح دوپہر شام بڑھتی رہتی ہیں پہلے ایسا کچھ بھی نہیں تھا بس سالانہ بجٹ میں تھوڑا بہت اضافہ ہو جاتا اور اللہ اللہ خیر سلا۔ پھر تفہیم دین کے عنوان سے ایک مختصر سا پروگرام ہوتا جس میں ایک عالم دین قرآن وحدیث کی روشنی میں تھوڑی دیر بات کرتا اور پھر قومی ترانہ اس کے بعد ٹی وی کی نشریات اختتام کو پہنچ جاتیں اور چھوٹے بڑے خواب خرگوش کے مزے لینے لگتے۔ رات کو جلدی سونا اور صبح سویرے بیدار ہو جانا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وقت کیساتھ ہر چیز بدل جاتی ہے زمانے نے تیزی سے ترقی کی تو زمانے کے انداز بھی بدلتے چلے گئے، سائنس کی ترقی نے حضرت انسان کو اتنا مصروف کردیا ہے کہ اب اس کے پاس سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں رہی چینلز پر چینلز گھماتے جائیے ٹی وی سے جی اکتا جائے تو کمپیوٹر موجود ہے نیٹ آن کیجئے اور پوری دنیا کے دورے پر نکل جائیے دنیا بھر کے اخبارات آپ کے کمپیوٹر کی سکرین پر موجود ہیں پڑھتے جائیے اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتے جائیے کہتے ہیں جب کوئی چیز اپنی حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر وہ اپنی ضد میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ آپ اسے معلومات کی بدہضمی بھی کہہ سکتے ہیں ایک ہی موضوع یا واقعے پر اتنے تبصرے سننے کو ملتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن منتشر ہو کر رہ گئے ہیں، اب تو انسان کیلئے سچ جھوٹ کی تمیز کرنا بھی بہت مشکل ہوگیا ہے جب اپنے موقف کے حق میں دلائل دئیے جاتے ہیں تو سننے والے دھنگ رہ جاتے ہیں اور انہیں ان کی صداقت میں کوئی شک نہیں رہتا۔اب تو بہت سے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو ٹی وی پر ایک ہی قسم کے چہرے دیکھ دیکھ کر اور ان کی ایک ہی قسم کی باتیں سن سن کر اکتا چکے ہیں جسے دیکھئے اپنی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا رہا ہے، چیخ چیخ کر باتیں کی جارہی ہیں دوسروں کو بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ حالات کے دھارے پر سب بہہ رہے ہیں، صحیح صورتحال کا ادراک کرنا سب کیلئے اسی لئے مشکل ہے کہ اس شور شرابے میں کسی کو اپنے اندر جھانکنے کا موقع بھی تو نہیں ملتا۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''