1 267

کل کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے

چہروں پر دوہتڑ مارتے اور سینہ کوبی کرتے آنسوؤں کی جھڑی لگاتے مظلوموں کی ویڈیوز کچھ میڈیا اور زیادہ تر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے سے اصل صورتحال نے حالات کے چہرے کو واضح کرنا شروع کردیا ہے، اسے یوں بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا مگر یہاں تو اب زبان خنجر بھی خاموش رہنے کو تیار نہیں ہے اور تباہ کن مہنگائی کا خون آلود خنجر ان گھاؤ کو واضح کر کے سامنے لارہا ہے جس سے عوام کی زندگی انتہائی مشکلات سے دوچار ہوچکی ہے۔ مسلسل مہنگائی جسے ایک بھارتی فلم کے مشہور ڈائیلاگ کی طرز پر ”مہنگائی پہ مہنگائی، مہنگائی پہ مہنگائی” کہنے میں کیا امر مانع ہوسکتا ہے ایسے مراحل میں داخل ہو چکی ہے جو سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جانے کو تیار ہے۔ غریب طبقہ تو پہلے ہی برباد تھا اب تو سفید پوشوں کو بھی اپنی عزت کے لالے پڑ چکے ہیں اور یہ جو گزشتہ روز سے ڈی چوک میں ایک جانب لیڈی ہیلتھ ورکرز نے ڈیرے ڈال دئیے ہیں جبکہ دوسری جانب سرکاری ملازمین نے بھی دھرنا دیدیا ہے تو ایسی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی کہ اس کے پیچھے اپوزشین ہے بلکہ اس صورتحال کو جنم دینے میں خود حکومتی پالیسیاں ہیں جن کی مبینہ طور پر آئی ایم ایف نے بجٹ سے پہلے ڈکٹیشن دیکر تنخواہوں اور پنشن سے سرکاری ملازمین کو محروم رکھا، بات صرف ”اضافے” کی راہ کھوٹی کرنے تک محدود رہتی تو کوئی تشویش نہ ہوتی، مگر جب دوسری جانب زندگی کے ہر شعبے کو مسلسل مہنگائی نے شدت سے متاثر کرنا شروع کیا جس کو قابو کرنے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی تو محدود آمدن والے ملازمین اور خصوصاً پنشنرز کی قوت خرید متاثر ہو کر تہس نہس ہوگئی، انہیں پہلے ہی سے کم تنخواہوں اور پنشن میں وقت گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوگیا، یوں تنگ آمد بہ جنگ آمد والی صورتحال نے پائے رفتن نہ جائے ماندن والی کیفیت میں ڈھل کر ڈی چوک پہنچنے پر مجبور کردیا شاید یہی وجہ ہے کہ ان سرکاری حلقوں کی جانب سے جو ان دنوں چاروں جانب سے اپوزیشن کی ”تحریک” کیخلاف تو یک زبان ہوکر دل کا غبار نکال رہے ہیں ابھی تک سرکاری ملازمین کے احتجاجی مظاہرے کو اپوزیشن کیساتھ جوڑنے کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا وگرنہ احتجاجی ملازموں اور اپوزیشن کے مابین ”رشتہ جوڑنے” میں کونسی دیر لگ سکتی ہے۔ ممکن ہے لاتعداد سرکاری ترجمانوں کو ابھی اپوزیشن جماعتوں کی مبینہ تحریک سے نمٹنے کے حوالے بیان بازی سے فرصت نہ ملی ہو کہ وہ سرکاری ملازمین کی حالت زار پر بھی کوئی رائے زنی کرسکیں کیونکہ ان کی توپوں کے سارے دہانے فی الحال سیاسی مخالفین ہی کی جانب گولہ باری میں مصروف ہیں، اس حوالے سے مشتے ازخروارے کے مصداق تمام بیانات کا نچوڑ اگر وفاقی وزیراطلاعات ونشریات شبلی فراز کے گزشتہ روز کے بیان کو لیا جائے تو محولہ لطیفے کی افادیت واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے ”اپوزیشن” ڈرامہ کی کوئی فکر نہیں ہے، یہ لوگ رعایت چاہتے ہیں”۔ا س بیان پر شبلی فراز کو ان کے اپنے ہی والد محترم احمد فراز کا یہ شعر یاد دلایا جا سکتا ہے کہ
سنا ہے بولے تو ہونٹوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سوشل میڈیا پر ان دنوں ویسے بھی شبلی فراز کو ان کی ٹویٹس کے حوالے سے یار لوگ ان کے والد ہی کے مختلف اشعار پیش کر کے دل پشوری کر رہے ہیں، خیر بات اپوزیشن کے بقول شبلی فراز ڈارمے کی چلی ہے تو اگر حکومتی حلقے اس تازہ ڈرامے یا ”تازہ یوٹرن” کی وضاحت کر سکیں تو اس سے قوم کی صحت پر مثبت اثر پڑنے کا اندازہ ہو جائے گا، یعنی گزشتہ روز وزیراعظم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اپوزیشن کے جلسوں، ریلیوں اور جلوسوں کو نہ روکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ حکومت ان کے جلسوں سے خوفزدہ نہیں ہے نہ ہی اسے کوئی فرق پڑتا ہے مگر ابھی اس بلند بانگ دعوے کی روشنائی (سیاہی) خشک بھی نہیں ہوپائی تھی کہ ماضی میں کئی بار کے اختیار کئے ہوئے اقدامات کی طرز پر مخالفین کیخلاف پرانے آزمودہ نسخوں کا اعادہ کرنا شروع کردیا گیا ہے۔ کارکنوں کی پکڑ دھکڑ، بینرز اُتارنا، جلسے کی تادم تحریر اجازت دینے سے ٹال مٹول، کنٹینرز کے ذریعے شاہراہوں کو بلاک کر کے جلوسوں اور ریلیوں تک کو مقررہ جلسہ گاہ تک نہ پہنچنے کے اقدامات، وغیرہ وغیرہ سے حکومت اپنے ہی فیصلے کی نفی کرنے پر اُتر آئی ہے۔ کنٹینروں کا حشر ماضی میں بھی ہم دیکھ چکے ہیں یعنی سیاسی جماعتوں کے پاس تو جوشیلے، پرعزم اور منظم ورکرز کی کمی نہیں ہوتی مگر یہاں تو گزشتہ روز اسلام آباد میں نہتے سرکاری ملازموں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے ان کنٹینروں کا جو حشر کیا ہے اس کے بعد سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سرکاری اقدامات کا کیا حال متوقع ہے اس کے بارے میں تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ اب خداجانے ایک بار ہوشمندی کے تحت اپوزیشن کو جلسے کرنے کی اجازت دینے کے حوالے سے کئے گئے فیصلے کو حکومت کے کن نادان دوستوں کے ”مشورے” پر (غیراعلانیہ) واپس لینے کی راہ اختیار کی گئی، جو کسی بھی لمحے خدانخواستہ تصادم پر منتج ہو سکتی ہے حالانکہ ان جلسوں سے حکومت کے گرنے کے کوئی خدشات نہیں تھے مگر اب۔۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بقول اسماعیل میرٹھی
ہے آج رخ ہوا کا موافق تو چل نکل
کل کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات