4 205

اصول کا معاملہ یا ”سپیس” کا سوال؟

ملک میں ایک سیاسی اُبال آرہا ہے اور یہ قطعی غیرمتوقع نہیں تھا کیونکہ موجودہ ملکی حالات میں چند سیاسی گھرانے سپیس چاہتے تھے۔ سپیس کے اصل مفہوم کو پنجابی کے اس محاورے میں تلاش کیا جاسکتا ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ”لاٹھی جتنی جگہ دو اپنی جگہ میں خود بنالوں گا”۔ سپیس کا سوال پاکستان میں نیا نہیں۔ سپیس کی ایک کہانی اس وقت سننے کو ملی تھی جب عمران خان کے دھرنے کے باعث نوازحکومت تنگ وعاجز آچکی تھی۔ حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی مخالفت کا میلہ لگا ہوا تھا اور حکومت اس احتجاج کو طاقت سے منتشر کرنے کی صلاحیت سے عاری تھی۔ اسی عالم بے بسی میں ایک شام چوہدری نثار علی خان اپنے دوست میاں شہباز شریف کیساتھ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملے اور پوچھا کہ ان حالات میں فوج کیا چاہتی ہے؟ راحیل شریف کا جواب تھا حکومت کا خاتمہ نہ عمران خان کی حکومت کا قیام فقط ”سپیس”۔ اس کی مزید تشریح یوں کی گئی کہ ملک کی جیو سٹریٹجک صورتحال پر اثرانداز ہونے والے فیصلوں میں مشاورت۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان دائیں بائیں سے کراس فائر میں آچکا تھا اور سیلابی پانی کی طرح ساری بیرونی جنگوں کے مضراثرات اس کی اپنی دہلیز پار کرکے کچن اور ڈرائنگ روم تک آچکے تھے۔ فوج ان جنگوں کو لڑنے میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھی مگر اسے فیصلوں میں مطلوبہ سپیس نہیں مل رہی تھی۔ دنیا میں وائٹ ہاؤس سے ٹن ڈاؤننگ سٹریٹ تک مستحکم جمہوریتوں میں بھی شاید ہی کسی فوج کو جیو سٹرٹیجک فیصلوں کیلئے سول حکمرانوں کے آگے یوں سپیس کا کشکول دراز کرنا پڑتا ہو؟ ”مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی” کے مصداق پھر آپ کی سیاست کی بنیاد میں کجی اور خامی موجود ہے جو ہر موڑ پر اچھی بھلی عمارت کو زمیں بوس کر دیتی ہے۔ اس سپیس کہانی کے بعد وقت بدلا اور محمد زبیر جی ایچ کیو کی راہداریوں میں گھومتے پائے گئے۔ محمد زبیر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا جب آپ سیاست میں سپیس نہیں دیں گے تو پھر وہی بیانیہ سامنے آتا ہے جو نوازشریف نے اپنایا ہے۔ محمد زبیر کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ نوازشریف کے بعد مریم کیلئے گرین سگنل نہیں ہوگا تو پھر باقی کیا بچتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں انہوں نے بتا دیا کہ اگلے انتخابات میں مریم نوا زکی کامیابی کیلئے سگنل نہ ملنے کے بعد کمان کے سارے تیر آزمانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ ملک میں جاری غبار کی ساری وجہ یہی نہیں بلکہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سیاستدان مدبر اور مصلح بننے کی بجائے کمیشن اور بدعنوانی کا کھیل شروع کرتے ہیں اور جواب مانگیں تو جمہوریت کے پیچھے چھپنے کا راستہ اپناتے ہیں۔ سیاستدان کی
جواب دہی کا جمہوریت کے خطرات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ حال ہی کے واقعات ہیں جن میں معروف بھارتی سیاستدان اختیارات کے ناجائز استعمال، کمیشن خوری، آمدنی سے زائد اثاثوں کے الزامات کی زد میں آکر گردش دوراں کا شکار ہوئے مگر نہ بھارت میں جمہوریت خطرے میں پڑی، نہ تامل ناڈو اور بہار کی ریاستوں اور عوام کی عزت داؤ پر لگی۔ کسی نے اینٹی کرپشن کیسز کو انتقام قرار دیا نہ ان اداروں کو ختم کرنے کے مطالبات ہوئے، جو شخص عوام کی قیادت کا نسل درنسل دعویدار ہو اور اختیارات کا مزہ لینے کا عادی ہو۔ فیصلہ سازی کی مسند کا ہمہ وقت خواہش مند ہو اسے جواب دہی اور احتساب کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے۔ صاحب اختیار شخص کے احتساب اور جواب دہی کیلئے روزآخرت یا انتخابی عمل کا انتظار اور اسے کسوٹی بنانا انصاف کے اصول اور تقاضے کے قطعی مغائر ہے۔ جمہوریت جواب دہی کا نام ہے، ذمہ داری امانت ہے اور اس کا حساب کتاب اسمبلی میں سوال وجواب سے مکمل نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے، ہم نے سیاسی جماعتوں کو خانقاہی نظام کی طرح تقدس کے ہالے میں بند رکھا ہے۔ اول تو سیاسی جماعت کی اطاعت روحانی پیشوا کی طرح ہونی چاہئے۔ سیاسی قیادت سیاہ کو سفید کہے تو اسے سفید ہی ماننا چاہئے، بصورت دیگر اس جماعت میں اپنے دن ختم سمجھ لینا چاہئے۔ پھر سسٹم اور قانون جواب طلب کرے، حساب کتاب مانگے تو سیاست پر چڑھے اس خانقاہی تقدس کی ملمع کاری کے پیچھے چھپا جائے۔ اس وقت ملک میں جاری کشمکش صرف سول اور ملٹری کشمکش ہی نہیں بلکہ بدعنوانی اور اس کے حساب کتاب کا معاملہ بھی ہے گویا کہ گلاس آدھا خالی ہے یا آدھا پانی ہے۔ جس دل کو جو رخ بھا جاتا ہے وہ اس کا انتخاب اور سوچ کا انداز اپناتا ہے۔ سول اور ملٹری کشمکش بھی ایک حقیقت ہے اور بدعنوانی اور بے تحاشا دولت اور منی لانڈرنگ بھی کوئی معمولی بات نہیں۔ سوچنے کی بات تو ہے کہ جس مدت میں ملک کنگال ہوتا ہے اسی مدت میں حکمرانوں کی دولت کے مینار کھڑے ہوتے ہیں، ہمارے سول حکمرانوں نے اس چیز کو چھپایا نہیں نہ وہ اس پر معترض رہتے ہیں ان کا اعتراض صرف یہ ہوتا ہے کہ صرف ہمارا احتساب ہی کیوں؟ فلاں جنرل اور جج کا احتساب کیوں نہیں؟ گویا کہ جب اپنے اوپر پڑتی ہے تو وہ اپنی آگ بجھانے کی بجائے جلتا ہوا کمبل دوسروں پر بھی ڈال دیتے ہیں تاکہ یہ آگ ان تک محدود نہ رہے۔ احتساب اور جواب دہی کا اصول جج اور جرنیل سمیت سب پر لاگو ہونا چاہئے مگر اپنے حصے کا بوجھ کسی دوسرے پر لاد دینا اور کسی دوسرے کی آڑ لینا مناسب رویہ نہیں۔ ایسے میںسپیس کا سوال اپنی جگہ مگر جو سپیس سویلین حکمرانوں کو حاصل ہوئی اس کے حساب کو انتقام قرار دیکر معاملے کو ایک نیا رخ دینا بھی جمہوریت کی کونسی خدمت ہے؟۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے