p613 156

مشرقیات

چند دوست ساتھ نکلے ایک طرف کو چلے۔اتفاق سے وہاں کچھ اور لوگ پہلے سے موجود تھے یہ کافر وہ مسلمان !وہ مسلمان تھے،اس کا پتہ یوں چلا کہ نماز کا وقت آیا تو ان میں سے ایک شخص نے اُٹھ کر اذان دی۔سنن ابن ماجہ میں ہے یہ وہ زمانہ تھا جب مکہ فتح ہوگیا تھا۔کافروں کی ٹولی میں ابی محذورہ بھی تھے بڑے جری، بڑے لڑاکا اور بڑے شریر۔انہوںنے جواذان کی آواز سُنی تو اُسکا مذاق اُڑایا۔خوب خوب اذان کی نقل کی۔دور کھڑے ہو کر بڑی اونچی آواز میں اذان کے الفاظ دہرائے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔آپۖ نے یہ آوازیں سنیں تو صحابہ کرام میں سے کچھ کو حکم دیا کہ جائو اور دیکھو کہ کون لوگ ہیں۔انہیں ساتھ لے آئو۔مسلمان اس وقت بڑی تعداد میں تھے مذاق اڑانے والے تھوڑے تھے مسلمانوں نے انہیں پکڑا اور حکم نبویۖ کی تعمیل میں گرفتار کر کے سامنے لا کھڑا کیا ابومحذورہ اور انکے ساتھی خاصے سہمے ہوئے تھے۔مگر وہ رحمت عالمۖ کا دربار تھا ۔آپۖ نے پہلا حکم قیدیوں کو یہ دیا کہ بیٹھ جائیں۔یہ لوگ جو پریشان تھے حکم کی پابندی میں بیٹھ گئے۔آپۖ نے فرمایا تم میں سے وہ شخص کون ہے جس کی آواز بڑی اور بلند ہے ،پکڑے جانے والوں نے ابو محذورہ کی طرف اشارہ کیا۔ حکم ہوا کہ بس انہیں یہاں چھوڑ دیا جائے باقی سب چلے جائیں۔ابومحذورہ کے ساتھی اپنی جان بچا کر بھاگے وہ جب پکڑے گئے تو یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی جانیں گئیں۔ابو محذورہ کو حکم ملا کہ آپۖ کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔انہوں نے سوچا چلو اب جان گئی مگر ارشاد ہوا کہ اذان دو!ابو محذورہ بولے مجھے تو اذان کے الفاظ نہیں آتے،آپۖ نے فرمایا میں تمہیں سکھاتا ہوں ابو محذورہ نے اذان دی تو سنن ابن ماجہ میں ہے سرورکشور رسالتۖ نے انہیں ایک تھیلی دی جس میں چاندی تھی اور پھر ان کے ماتھے اور سینے پر بڑی شفقت سے اپنا دست مبارک پھیرا۔ابو محذورہ کہتے ہیں اس وقت تک میرے دل میں نفرت اور غصے کے جذبات بھڑ ک رہے تھے لیکن اب مجھے محسوس ہوا کہ آپۖ بڑے شفیق وکریم ہیں تو میرے خیالات بدلنے لگے۔آخر میں آپۖ نے فرمایا کہ تم جاسکتے ہو اللہ تعالیٰ تم پر رحمت نازل فرمائے۔ابو محذورہ واپس جانا نہیں چاہتے تھے۔
دشمن سے مذاق کرنے والے سے یہ سلوک ان پر ایسا اثر کر گیا کہ اسلام لا کر وہاں سے اٹھے پھر تڑپ تڑپ کر آپۖ سے درخواست کرنے لگے کہ میں مکے کا رہنے والا ہوں،آپۖ مجھے کعبة اللہ میں مٔوذن مقرر کریں آپۖ نے ان کی یہ خواہش پوری کردی اور دنیا کو معلوم ہوا کہ برائی کا علاج برائی نہیں بھلائی ہے۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات