p613 161

وزیراعظم کی عوام کو صبر کی تلقین اور عوامی توقعات

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر عوام کو تسلی دیتے ہوئے کہا ہے کہ تھوڑا صبر کر لیں’ ملک کو طاقت ور بنا دوں گا’ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی کمزور طبقہ کیلئے کی جانے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں’ یہ نہیںہو سکتا کہ غریب جیل اور امیر لندن جائے’ وزیر اعظم نے کہا میں چاہتا ہوں کہ تھانوں میں کسی پر ظلم نہ ہو ، انہوں نے برملا کہا کہ قومیں کپاس اور کپڑا بیچنے سے نہیں بلکہ تعلیم پر خرچ کرنے سے بنتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے میانوالی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پسماندہ علاقوں کے مسائل کابخوبی ادراک ہے’ انہوں نے سابقہ حکومتوں کی طرف سے چند ایک بڑے شہروں کیلئے ترقیاتی منصوبوں پر کثیر لاگتی منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ”قوم ایسے ترقی نہیں کرتی کہ ایک شہر یا دو تین شہروںپر آپ سارا پیسہ خرچ کریں ‘ وہ آگے نکل جائیں اور باقی لوگ پیچھے رہ جائیں۔” وزیر اعظم نے میانوالی میں خطاب کرتے ہوئے بنیادی طور پر دو باتیں کی ہیں ‘ ایک یہ کہ عوام تھوڑا صبر کریں وہ بہت جلد ملک کو طاقتور بنا دیں گے ‘ وزیر اعظم عمران خان بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام نے ملک کی قدیم اور بڑی سیاسی جماعتوں کی بجائے تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا ‘ الیکشن 2018ء میں تحریک انصاف کوعوامی ووٹ کی بدولت اقتدار نصیب ہوا ‘ پاکستان کے عوام نے تحریک انصاف سے امیدیں بھی وابستہ کر لی تھیں جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی قوم کو امید دلائی تھی کہ وہ اقتدار میں آ کر 90 رو ز میں کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے’ اور ملک سے لوٹی ہوئی رقم واپس لائیں گے’ اب جبکہ تحریک انصاف کو اقتدار میں آئے ہوئے دو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے ‘ کرپشن کا خاتمہ یقینی بنایا گیا ہے ‘ لوٹی ہوئی رقم کی واپسی ہوئی ہے اور نہ ہی دیگر مسائل میں کوئی بہتری آئی ہے بلکہ مسائل میں ایک گنا اضافہ ہی ہوا ہے۔ مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ‘ بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے ‘ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ سابقہ ادوار میں عوام کو جو روکھی سوکھی میسر تھی آج عوام اس سے بھی محروم ہو چکے ہیں ایسے حالات میں جب عوام ریلیف کیلئے حکومت کی طرف دیکھ رہے تھے تو وزیر اعظم عمران خان انہیں مزید صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی خدمت میں مؤدبانہ درخواست ہے کہ کمزوروںکو اوپر اٹھانے کا اگر ان کے پاس کوئی پروگرام ہے تواسے پیش کرنے کا یہ بہترین وقت ہے کیونکہ پاکستان کے عوام اس وقت حکومت کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر حکومت نے عوامی مسائل کے حل اور عوامی فلاح کیلئے اب بھی کوئی اقدام نہ اٹھایا تو پھر شاید بہت دیر ہو جائے۔ ابھی تک پاکستان کے عوام کی حکومت سے امیدیں قائم ہیں ، اگر عوام کی امیدیں ٹوٹ گئیں تو اعتماد ٹوٹنے میں دیر نہیں لگے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں دوسری بات یہ کہی کہ ”قومیں کپاس اور کپڑا بیچنے سے نہیں تعلیم پر خرچ کرنے سے بنتی ہیں۔”اس حوالے سے معلوم ہونا چاہیے کہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو امید تھی کہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا لیکن تعلیمی بجٹ میں اضافہ کی بجائے کمی کر دی گئی ، جس کا نقصان مجموعی تعلیمی سہولیات پر پڑا، تحریک انصاف کی حکومت نے اگرچہ یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے میں ابتدائی کام مکمل کر لیا ہے’ اگر کورونا وائرس اثر انداز نہ ہوتا تو شاید مارچ 2020ء سے یکساں نصاب تعلیم رائج ہو چکا ہوتا لیکن تعلیمی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں تعلیمی معیار کو بلندی پر لانا ہے تو پھر اس مقصد کیلئے ہمیں تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرنا ہو گا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے احساس پروگرام کے تحت مستحق طلباء کیلئے سکالر شپس پروگرام کا اجراء کیا ہے جس سے غریب و مستحق طلباء کی بڑی تعداد مستفید ہو رہی ہے تاہم ہمارا نظام تعلیم تقاضا کرتا ہے کہ طلباء کی مخصوص تعداد نہیں بلکہ نظام تعلیم کے مجموعی ڈھانچے کا جائزہ لیا جائے ‘ اس مقصد کیلئے تعلیمی بجٹ میں اضافے کی ضرورت ہے ‘ اس لیے مناسب معلوم ہوتاہے کہ وزیر اعظم عمران خان تعلیم پر خرچ کرنے کے جس عزم کا اظہار کر رہے ہیں اس ضمن میں حقیقی معنوں میں بھی اقدامات اٹھائے جائیں ۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار