4 211

ظلم رہے اور امن بھی ہو؟

یہ کہنا تو نہایت مشکل ہے کہ مستقبل کا مؤرخ ہمارے عہد رواں کے بارے میں کیا رائے اور نظریہ ترتیب دے گا لیکن یہ بات درست ہے کہ وہ ہمارے زمانے کے جن انسانیت سوز واقعات کو اپنے تجزئیے اور تبصرے میں شامل کرے گا ان میں مسئلہ کشمیر یقینی طور پر نمایاں اور اوّلین درجے پر ہوگا۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ سائنسی اور فنی اعتبار سے ہماری موجودہ نسل نے بے پناہ ترقی کی ہے اور گاہے اس ترقی کو حیرت کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اخلاقی طور پر اور انسانی اقدار کے فروغ اور استحکام کے حوالے سے ہم لوگ ایک دوسرے کے سامنے شرمندہ ہی نہیں بلکہ بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ عالمی برادری اور ادارے امن کا پرچار کرتے ہیں اور اس حوالے سے جمہوریت یعنی اکثریت کی رائے کو معتبر سمجھا جاتا ہے لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ترقی پذیر ممالک جو دراصل غریب ممالک کی فہرست میں ہی شمار ہوتے ہیں’ مذکورہ ممالک میں آمریت اور غیرجمہوری عناصر کو فروغ دینے کیلئے درپردہ اور خفیہ لائحہ عمل کے تحت ایک ایسی آنکھ مچولی کھیلی جاتی ہے جس میں سب کچھ دکھائی دینے کے باوجود کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس تناظر میں مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر ایک نہایت قابل ذکر مثال ہے۔عالمی سیاسی اور سفارتی حالات کے مطالعہ سے یہ حقیقت اُجاگر ہوتی ہے کہ 1947ء میں جب برصغیر پاک وہند سے برطانوی قابض حکمرانوں نے رخصت ہونے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اپنے ماضی کی روایت کے مطابق یہاں پر بھی بعض ایسے مسائل چھوڑ دئیے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع اور تصادم کا باعث ثابت ہوئے۔ یہ نفرت اور دشمنی کے ایسے بیج تھے جن کے نتیجے میں امن اور ترقی کے پودے نمودار نہیں ہوسکتے تھے بلکہ اس کی بجائے تصادم اور محاذ آرائی ہی منظرعام پر آسکتی تھی۔ یہ بات کسی تفصیل کی محتاج نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع مسائل میں مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے۔ طے شدہ برطانوی ایجنڈے کے مطابق برصغیر کی دیگر ریاستوں کی طرح مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں بھی اس امر بارے رائے شماری لازمی تھی کہ یہاں کے عوام بھارت اور پاکستان میں سے کس کیساتھ اپنا سیاسی مستقبل وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی نوشتہ دیوار تھی کہ مقبوضہ ریاست میں بلاشبہ مسلمانوںکی آبادی اکثریت پر مشتمل تھی اور ان کا یقینی اور کھلا فیصلہ پاکستان کے حق میں تھا، جب وادی کے عوام کو ان کے اس سیاسی حق سے محروم کیا گیا تو وہ اپنی تاریخ اور روایت کے عین مطابق احتجاج اور مزاحمت کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے۔ ایسی صورتحال میں 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے اپنی توسیع پسندانہ’ جارحانہ اور اسلام دشمن ذہنیت کا ناقابل تردید ثبوت دیتے ہوئے اپنی فوجوں کو مقبوضہ وادی پر اپنا غیرقانونی قبضہ جمانے کیلئے جموں اور سری نگر روانہ کردیا۔ نئی دہلی کے پالیسی ساز ادارے اور شخصیات خوب جانتے تھے کہ اگر مقبوضہ وادی کے عوام کو اپنے مستقبل کی سیاسی وابستگی کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا گیا تو بھارت اس جنت نظیر وادی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہوجائے گا اور یہ بات بھارتی ہندو ذہنیت کیلئے ناقابل قبول تھی ایسے میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک طرف تو عوام کو ان کے سیاسی حق یعنی رائے شماری سے محروم رکھا جائے اور دوسری طرف تاخیری حربے استعمال کرکے عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کو اصلاح احوال سے باز رکھا جائے۔ خوب اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سات عشروں سے زائد عرصے کے دوران بھارت نے مقبوضہ وادی پر عسکری یلغار جاری رکھی لیکن وادی کے عوام بھی نولاکھ درندوں کے سامنے احتجاج اور مزاحمت کے بھرپور مظاہرے سمیت ہر سال دنیا بھر میں 27اکتوبرکو یوم سیاہ مناتے ہیں۔مہذب دنیا میں اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یوں تو ہر بھارتی حکومت نے عالمی رائے عامہ کے سامنے اپنے مذموم اور غلط پراپیگنڈہ کی مدد سے مقبوضہ وادی کے احوال کو پوشیدہ رکھا لیکن مودی سرکار نے اس سلسلے میں ہر حکومت کا ریکارڈ توڑ دیا ہے چنانچہ حال ہی میں اقوام متحدہ نے بھارتی حکومت سے دوبارہ اصرار کیا ہے کہ جبری طور پر لاپتہ اور گمشدہ کئے گئے افراد اور وادی میں پائی گئی اجتماعی قبروں کے معاملے کا سراغ لگایا جائے۔ اس عالمی تبصرے اور تجزئیے کے باوجود مودی سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایسے میں ممتاز کشمیری راہنما شیخ عبداللہ (مرحوم) کے صاحبزادے اور مقبوضہ وادی میں بھارت کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے حالات کے جبر اور تلخ حقائق سے متاثر ہو کر اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں دو ٹوک اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ ایک زمانے میں مقبوضہ وادی کے عوام’ بھارتی حکومت اور عوام کو اپنا ہمدرد اور دوست خیال کرتے تھے لیکن اب یہ صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ مقبوضہ وادی کے نہتے اور بے بس عوام اب مودی سرکار کی حکومت کی بجائے چین ایسی طاقت کے زیراثر رہنے کو ترجیح دیں گے۔ ایسے میں اس سوال سے اب مہذب دنیا اور عالمی رائے عامہ صرف نظر نہیں کرسکتی کہ ”ظلم رہے اور امن بھی ہو”

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار