1 292

ری ٹویٹ کا غیرمجاز مشغلہ؟

امریکی سفارتخانہ ایک دور میں ملک میں سیاست کے نین نقش تراشنے میں پیش پیش ہوتا تھا۔ اس عمل کو چھپانے اور پردوں میں مفلوف کرنے کی ضرورت بھی زیادہ محسوس نہیں کی جا تی تھی۔ ملک میں چلنے والی سیاسی تحریکوں میں تجزیہ نگار، جوتشی اور پنڈت اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ کون سفارتخانے کے چکر کاٹ کر آیا اور اس یاترا کے اس شخص کے لب ولہجے پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس کی باڈی لینگوئج میں کیا فرق آیا ہے، اسی سے آنے والے سیاسی موسموں اور رُتوں کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ جو سیاستدان امریکی سفارتخانے کا چکر کاٹ کر آتا اس کے بارے میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ اقتدار کا ہُما اسی کے سر بیٹھے گا۔ سیاسی شخصیات کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے وہ بھی اس بات کو چھپانے کی بجائے عیاں کرنے میں دلچسپی لیتے تھے کیونکہ اس طرح کی ملاقاتوں کے گہرے نفسیاتی اثرات سوسائٹی پر مرتب ہوتے تھے۔ اب شاید وقت بدل گیا ہے، ممکن ہے امریکہ محتاط ہوگیا ہو، یاگمان ہے کہ ہم نے سیاسی ڈرون حملے کی طرح اس رسم وریت کو برا سمجھنا شروع کیا ہو اور اس سے ڈومور کی بُو آرہی ہو، امریکی سفارتخانوں میں ہونے والی ملاقاتوں کی یا تو تشہیر نہیں کی جاتی یا پھر ملاقاتوں کی نوعیت اور انداز بدل گئے ہوں۔ صدر اور وزیراعظم کی تعیناتی کیلئے امریکی سفارتخانے کا گرین سگنل تو تاریخ کا حصہ ہے مگر جنرل حمید گل کا ایک انٹرویو آج بھی سوشل میڈیا پر محوگردش ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آرمی چیف کے نام کی منظوری بھی واشنگٹن سے آتی ہے۔ جنرل حمید گل اس گرین سگنل کے ”مقتول” تھے کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ آرمی چیف کیلئے ان کے نام کی مخالفت امریکی کر رہے ہیں۔ ایسا تھا بھی یا محض ایک سخت گیر شخصیت سے جان چھڑانے کیلئے حکومت نے امریکہ کی مخالفت کا عذرِلنگ تراشا تھا اس بارے میں حتمی رائے نہیں دی جا سکتی مگر حمید گل پوری شرح صدر کیساتھ یہ سمجھتے تھے کہ اس معاملے میں امریکہ کی رائے مرکزی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں کراچی کے بلدیاتی مسائل بھی امریکی قونصل خانے کی دلچسپی کا مرکز ہوتے تھے۔ جب سے امریکہ اور پاکستان کے تزویراتی اختلافات گہرے ہوگئے ہیں تب سے ممکن ہے پاکستان نے اس حوالے سے حساسیت کا رویہ اپنا لیا ہو۔ جنرل مشرف کے بعد ملک سے امریکہ کے پھیلے ہوئے سسٹم کو جس طرح بہت مشکل سے سمیٹا گیا تھا اس نے پاکستان کو کچھ محتاط کیا۔ امریکہ کی چین کیساتھ کھلی مخاصمت اور پاکستان کا چین کیساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنا۔ پاکستانی سیاستدانوں کا طریقہ کار بھی شاید اب کچھ تبدیل ہوگیا ہے اور وہ امریکہ میں بیٹھ کر براہ راست رابطوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ آصف زرداری ضمانت پر رہا ہو کر بیرون ملک چلے گئے تو دوسال امریکہ میں گم اور بظاہر حالات سے لاتعلق رہے، بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ وہ حسین حقانی کے ذریعے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس بات پر قائل کرتے رہے کہ جنرل مشرف ان کے کسی کام کا نہیں رہا اب اس نظام کو سیاسی رنگ دیکر دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں، بعد میں امریکی جنرل مشرف کے سر سے دست شفقت ہٹاتے چلے گئے اور ایک روز آصف زرداری نے ہی انہیں ایوان اقتدار سے رخصت کر لیا۔ اسلام آباد میں طاقت کی حالیہ کشمکش میں امریکی سفارتخانہ اس وقت موضوع بحث بنا جب مسلم لیگ ن کے راہنما احسن اقبال نے ایک ٹویٹ کیا کہ ٹرمپ کی شکست دنیا کے آمروں کے لئے ایک دھچکا ہے، ہمارے پاس بھی ایک ایسا شخص ہے جلد اسے باہر کا راستہ دکھایا جائے گا۔ امریکی سفارت خانے نے احسن اقبال کا یہ ٹویٹ ری ٹویٹ کیا۔ حکومت کے احتجاج پر سفارتخانے نے اس پر معذرت کی اور کہا کہ ہمارے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا غیرمجاز استعمال ہوا۔ سفارتخانہ سیاسی بیانات ری ٹویٹ یا شیئر نہیں کرتا۔ یہ قطعی غیرسفارتی رویہ ہے، اب شاید زمانہ بدل گیا ہے کہ اب اس طرح کے برہنہ اشاروں کا فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔ پہلا نقصان تو یہی ہوا کہ امریکی سفارتخانے کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ”غیر مجاز” استعمال پر معذرت کرنا پڑی۔ اب انہیں اس معاملے میں مزید احتیاط برتنا پڑے گی۔ آج سے چند برس قبل سیاسی معاملات میں امریکی سفارتخانے کی جو مداخلت میں خوب ہوتی تھی وقت نے اس انداز کی مداخلت اور ”شوقِ َری ٹویٹ” کو ناخوب بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے پیمانے اور معیار تیزی سے تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔ بالخصوص جب سے امریکہ نے اپنا پورا وزن اور سارے انڈے اور جھنڈے بھارت کی ٹوکری میں ڈال دئیے ہیں اس وقت سے تعلقات کے پرانے پیمانے متروک ہو چکے ہیں۔ اب امریکہ کی حمایت کے بلینک چیک کا مطلب پاکستان اور چین کے تعلقات میں سی پیک سمیت بہت سے منصوبوں کو ریورس کرنا ہے اور بھارت کو ایک بڑے علاقائی ملک کے طور پر اس انداز سے راستہ دینا ہے کہ وہ واقعی چین جیسا بڑا ملک دکھائی دے اور اس کے زیرسایہ باقی ملک نیپال اور بھوٹان جیسے نظر آئیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی