3 241

عشق رسولۖاور فیض آباددھرنا

وہ شخص مسلمان نہیںہوسکتا جو رسول اللہۖ کی ختم نبوت اور ناموس اور حرمت کو سب سے زیادہ قیمتی متاع نہ سمجھے۔ الحمد اللہ! پاکستان میں ساری کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود عشق رسولۖ موجود رہا ہے اور اب شاید ساری دنیا کی نسبت یہاں یہ جذبہ سب سے زیادہ ہے اور اسی جذبے کے طفیل پاکستان کو ایک خاص مقام حاصل ہے لیکن اس حوالے سے چند نکات ایسے بھی ہیں جن میں ہم افراط وتفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی بات عشق رسولۖ کے حوالے سے بھی بعض اوقات سامنے آتی ہے۔ایک وہ زمانہ تھا جب یہاں انگریز کی حکومت تھی تب اگر کوئی گستاخی یا ناموس رسالتۖ کا مرتکب ہوتا تو مسلمان بے چارے انگریز سرکار کے پاس شکایت ومقدمہ درج کر کے بھی وہ نتیجہ حاصل نہ کرسکتے جس سے اُن کے دلوں کو تسلی وتشفی ملتی لہٰذا عاشقان رسولۖ ایسے حالات میں سرسے گزر کر گستاخان ناموس رسالتۖ کو اپنے انجام تک پہنچانے میں دیر نہ لگاتے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد یقینا حالات تبدیل ہوگئے اب یہاں مسلمانوں کی حکومت ہے اور آئین پاکستان میں 295-Cکی شق کے اضافہ کے بعد گستاخ ناموس رسالتۖ کو انجام تک پہنچانے کیلئے ایک قانونی پراسس موجود ہے لیکن بعض اوقات وہ پراسس یا تو بہت طویل اور پیچیدہ ہو جاتا ہے یا مختلف عوامل وعناصر کے دبائو کے تحت انجام تک پہنچنے سے پہلے گمبھیر بھول بھلیوں میں گم ہو جانے کے خدشات سے دوچار ہو جاتا ہے، اس لئے ہمارے بعض لوگ خود قانون کو ہاتھ میں لیکر آگے بڑھ جاتے ہیں اور یوں بہت سارے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔آج کوئی ملک تنہائی کا شکار ہونا برداشت نہیں کرسکتا، آج کی دنیا میں سب سے بڑا دبائو جو ملکوںپر پڑتا ہے معاشی دبائو ہے۔ ایران اس کی واضح مثال ہے، جو پیٹرول جیسی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود معاشی مشکلات کا شکار ہے کیونکہ امریکہ اور مغربی ممالک نے تجارتی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتیں بہت اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ ان کا اپنا مقام اور وجود ہے، پاکستان میں اسلامی شعائر کی صریح خلاف ورزیاں روکنے میں ان کا بہت بڑا کردار ہے لیکن اس کے باوجود آج تک جمہوری نظام میں ان کو عوام نے وہ مقام نہیں دیا ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں، اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن پچھلے کئی برسوں سے یہ جو نئی مذہبی تحریک لبیک اُٹھی ہے اس نے پنجاب میں خاطرخواہ ووٹرز کو متوجہ کیا ہے۔ اس کے اکابرین نے اپنی تحریک کا نام بھی بہت سوچ سمجھ کر ایسا رکھا ہے جو پنجاب کے پیرزدہ اذہان وقلوب کو بہت اپیل کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کو پچھلے الیکشن میں لاکھوں ووٹ پڑے جس سے ان کے رہنمائوں کے حوصلے بہت بڑھے ہیں، مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران انہوں نے اسی فیض آباد چوک میں دھرنا دیکر حالات کو بہت نازک بنا دیا تھا جس سے بات سپریم کورٹ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں تک پہنچ گئی تھی اور وہ معاملہ آج بھی ہماری سیاسی تاریخ میں متنازع ہونے کے علاوہ اب لاینحل رہا ہے۔
اب اس دفعہ پھر اپنے عشق رسولۖ کی قوت وطاقت کا اظہار اس انداز میں کر رہے ہیں کہ ایک طرف اصولی طور پر ان کے مطالبے (فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے) سے انکار ممکن نہیں جبکہ دوسری طرف اس میںکئی ایک پیچیدگیاں ایسی ہیں جو بہت نزاکت کی حامل ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ فرانس کے معاملے میں اسلامی ممالک بالخصوص عرب ممالک کا وہ مؤقف نہیں ہے جو ہماری تحریک لبیک والوں کا ہے اور اس کے علاوہ او آئی سی موجود ہے کیا ہمارے علماء بالخصوص لبیک سے متعلق ومنسلک علماء اسلامی دنیا کے علماء کو اکٹھا کرنے اور موبلائز کرنے کا فریضہ سرانجام نہیں دے سکتے۔ تیسری بات یہ کہ بجائے اس کے کہ سڑکوں چوراہوں پر اپنی طاقت کے مظاہرے کے ذریعے حکومتی اداروں، عوام اور تجارتی حلقوں کو امتحان وآزمائش میں ڈالا جائے کیا زعماء تحریک حکومتی اہلکاروں اور علماء پاکستان سے گفت وشنید اور مکالمہ کر کے کسی متفقہ حل کی طرف نہیں جا سکتے۔ عمران خان بھی عاشق رسولۖ ہونے کا دعویدار ہے۔ سلامتی کونسل اور بعض دیگر عالمی اداروں میں عمران خان نے جس انداز میں اس اہم موضوع پر بات کی ہے اس سے قبل کوئی نہیں کر سکا ہے۔ کیا حکومت اور تحریک لبیک ایک ہی نعرے کے علمبردار ہوتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے کوئی مناسب حل وتجویز پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے۔ اس کے علاوہ لبیک والوں کو یہ بھی چاہئے کہ اپنے عوام کی عشق رسولۖ کی تعلیمات کی روشنی میں عملی تربیت کا فریضہ بھی ادا کرے۔ اپنے ملک اور اس کے اداروں کو چیلنج کرنے سے گریز کیا جائے کہ بھارت ایسے واقعات سے فائدہ اُٹھا نے کے مواقع کی تلاش میں ایک دم مستعد رہتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اپنے ہاں صحیح معنوں میں علماء حق پر مشتمل ایک مذہبی تھنک ٹینک قائم کرے جو اس قسم کے معاملات میں حفظ ماتقدم کیساتھ معاملات کو سدھارا کرے۔ اس وقت حکومت کو جو مذہبی مشیر میسر ہیں وہ اُس صلاحیت سے محروم ہیں جن کا عوام کے دلوںمیں مقام ہوتا ہے۔ تحریک لبیک والے بھی عشق رسولۖ کے ایسے استعمال سے اجتناب کی راہ اپنائیں جس سے ملک وقوم کو نقصان کا خطرہ ہو اور عوام کو سچے اور باعمل عشق رسولۖ سے آگاہ کرنے کے انتظامات کریں۔
شرط ایماں مصطفیۖ سے والہانہ پیار ہے
پیار لیکن پیروی ہے پیروی دشوار ہے
پیروی سے عاشقی آسان ہے اور اس لئے
جس کو دیکھو ان کا دیوانہ سربازار ہے

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن