1 310

جلسہ ناکام ہوگیا

تو جناب ملتان میں پاکستان جمہوری تحریک کا جلسہ ناکام ہوگیا، یہ کوئی اور نہیں کہہ رہا ہے بلکہ پنجاب کے ہردلعزیز وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی مشیر خاص فردوس عاشق اعوان کے انکشافات پر مبنی ہے۔ محترمہ کے بھی پیشن گوئیاں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید سے کوئی کم نہیں ہوتیں بلکہ کچھ مصدقہ ہی ہوتی ہیں، ویسے بھی انہوں نے گھاٹ گھا ٹ کا مزا لیا ہوا ہے، شیخ رشید بیچارے کوکیا معلوم کیونکہ وہ ابھی تک سٹوڈنٹ سیاست کے اسیر ہیں اسی لئے ابھی تک فکر طالبانہ ہے چنانچہ فردوس عاشق کی تو بات ہی کچھ اور ہے چنانچہ ان کے تجربات کی بنیاد پر یقین تو کرنا پڑے گا لیکن سب سے عمدہ ٹویٹ جناب شبلی فراز نے کی ہے فرما رہے ہیں کہ مریم نواز جو ہیں وہ بینظیر بننا چاہتی ہیں، اگر عالمی دانشور کا صاحبزادہ ایسا بولے تو ماننا ہی پڑے گا مگر ان سے چک ہوگئی کہ کوئی کسی کا کبھی پرتو نہیں ہو سکتا چاہے کتنا ہی نقال بن جائے، بھٹو کل بھی زندہ تھی آج بھی زندہ ہے، یہ نعرہ کئی عشروں سے پی پی کے جیالوں کے دل کی آواز بن چکا ہے، چلیں چھوڑیں اس قضیہ کو اب آتے ہیں فردوس عاشق اعوان کی رائے زنی کی طر ف ظاہر ہے کہ ان کی خالی خولی رائے سے کوئی اتفاق کرے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب حکومت اپنی ساری سیکورٹی فورس کسی کو ناکا م بنانے کیلئے لگادے کیسے یقین ہو سکتا ہے کہ جلسہ ناکام ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی معلومات خفیہ اداروں پر مبنی ہو، جب خفیہ اداروں کا ذکر آیا تو ایک واقعہ یاد آگیا کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم سے ایک ملاقات میں ان سے عمران خان نیازی کے بہنوئی نے استفسار کر ڈالا کہ تحریک جمہوریت کی تحریک کس نہج پر ہے تو مرحوم نے اپنی میز پر پڑی ہوئی مختلف خفیہ ایجنسی کی رپورٹیں پڑھ کر سنا دیں جو سب کی سب مبالغہ پر مبنی تھیں، حقائق کچھ اور تھے۔ تب احساس ہوا کہ یہ اہم ترین قومی ادارے حکمرانوں کو کس انداز سے گمراہ کرتے ہیں۔ اس وقت بھی صورتحال نہ صرف مختلف ہے بلکہ ملک کیلئے خطرناک ہے، شاید ابھی یہ ادارے حقائق آشکارہ کرنے کی بجائے اپنے سربراہوں کو خوش کرنے کیلئے اب بھی اسی چال بے ڈھنگی پر چل رہے ہیں، یہ پہلا موقع ہے کہ حکمران جماعت کیساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہدف بنایا گیا ہے جو کسی طور پاکستان کی سلامتی کیلئے درست نہیں ہے، ان اداروں کو اپنے باس کی چاپلوسی کرنے، پاکستان کی سلامتی اور استحکام سے کھیلنے کی بجائے اسے مقدم رکھنا ان کے فرض اولین میں شامل ہے، پاکستان بار بار کسی بڑے سانحہ کا متحمل نہیں ہو سکتا کچھ احساس ذمہ داری بھی ہونا چاہئے۔ پہلے ہی پاکستان سقوط مشرقی پاکستان کے عظیم سانحہ سے دوچار ہو چکا اور ابھی حال ہی میں سقوط مقبوضہ کشمیر کے تیر وتفنگ کا شکار ہوا ہے اور اس سے پہلے سیاچین اور کارگل کا سانحہ برداشت کرنا پڑے ہیں یہ سارے صدمات پاکستان کو اپنے جنم کی صدی پوری ہونے سے پہلے پہلے اُٹھانا پڑے ہیں۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ عوام کے سیلاب کے سامنے بڑا سے بڑا ڈکٹیٹر نہیں ٹک سکا ہے چاہے اس نے اپنی آمرانہ چالوں کے ذریعے عوام کو بند گلی میں دھکیل دیا، ایوب خان اور بھٹو جیسا زیرک سیاستدان بھی عوام کے عذاب کے سامنے نہ ٹک سکے، ان کی بھی گڈی اُڑ گئی، ان دونوں نے پریس کا گلہ گھونٹ کر یہ جان لیا تھا کہ عوام حالات اور واقعات سے بے خبر رہیں گے اور ان کے کرتوت نہ جان سکیں گے حالانکہ اس وقت عوام کے پاس معلومات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ سارے میڈیا پر حکومت کی گرفت مضبوط تر ہوتی تھی اور وہ بھی سوائے حکومت کے گن گانے کے کچھ نہ کرنے کے مجاز تھے مگر آج تو حالات یکسر مختلف ہیں، ٹھیک ہے اخبارات، نجی ٹی اور ریڈیو پیمرا کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں مگر سوشل میڈیا آہنی ہاتھوںکی جکڑ سے باہر ہی ہے جس کی وجہ سے وزیراعظم کچھ پریشان بھی محسوس کئے جاتے ہیں کیونکہ وہ اکثر وبیشتر سوشل میڈیا سے گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ میڈیا حکومت کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کر رہا ہے جبکہ شبلی فراز اور دیگر اب بھی فرما رہے ہیں کہ جلسے جلوسوں سے حکومت کو نہیںگرایا جا سکتا یہ بات کافی حد تک درست ہے اور اس بات سے سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ مخالفین کے جلسے جلوس اور لفاظی حکومتوں کا تختہ نہیں پلٹ سکتیں ایسے موقعہ پر پس پشت کوئی عوامل ہوتے ہیں جو حالات و واقعات کی آڑ لیکر اپنا اُلو سیدھا کر جاتے ہیں۔ ایوب خان بھی جس نے ایک آمرانہ آئین بنا کر عوام کے سروں پر تھوپا تھا وہ بھی اس کے کام نہیںآیا کیونکہ آئین کے خالق نے کبھی بھی آئین کو مقدم اور مقدس نہ مانا صرف اپنی خواہشات کی پیروی کی، اسی طرح جنرل ضیاء الحق نے بھی ارشاد فرمایا تھا کہ آئین کیا چیز ہوتی ہے میں آج ہی اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دوں تو اس کی کیا حثیت رہے گی مگر وہ ایک باہمت انسان ہونے کے باوجود اس خواہش کو پورا کرنے سے عاجز رہے اور آئین کو دریابرد کرنے کی ہمت نہ پاسکے تھے کیونکہ آئین پر پوری قوم کا اعتماد اور اتفاق کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ کوئی شخص اقتدار کے گھمنڈ اور تکبر میں رہے اس کو عوام کو ساتھ لے کر چلنا پڑھتا ہے، عوام اس کیساتھ ہیں تو اس کا وجود بھی قائم دائم ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا