5 291

سرکاری جامعات کی خودمختاری خطرے میں

شاید دو ہفتے پہلے ایک چھوٹے سے ملک کے سربراہ کی ایک تقریر سنی تھی جس میں وہ بتا رہے تھے کہ ہم نے تمام اساتذہ کی تنخواہیں بڑھا دی ہیں کیونکہ سب سے زیادہ ہمیں ضرورت اچھے اساتذہ کی ہے اور جب اساتذہ کو ہم مراعات دیں گے تو اساتذہ ہمیں اچھا مستقبل دیں گے اور یوں ہمارا ملک ترقی کرے گا۔ ویڈیو دیکھ کر میرے ذہن میں وطن عزیز میں اساتذہ کے اپنے حقوق کے لئے کرنے والے مظاہرے دوڑنے لگے، جس میں وہ ملک کے مختلف حصوں میں سرگرم عمل ہیں۔ اپنے مطالبات کیلئے وہ بنی گالہ بھی پہنچ گئے، پھر ہم نے پی ایچ ڈی اساتذہ کو بھی مظاہرہ کرتے دیکھا جو اعلیٰ ڈگری کے بعد بیروزگاری کا شکار ہیں جن کی تعداد اب پانچ ہزار کے قریب ہے اور یہ تعداد آنے والے سالوں میں بیس ہزار تک پہنچ جائے گی کیونکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور محکمہ ہائیرایجوکیشن کی غلط پالیسیاں ہیں، جس کی بنیادی وجہ پرانے بابوؤں کا یونیورسٹی کے بڑی پوزیشنوں پر براجمان ہونا ہے، اب تو حکومت نے عمر کی حد بھی63 سال کر دی ہے جس سے مزید نئے لوگوں کو آنے کا مسئلہ پیش آگیا ہے۔ وطن عزیز میں ڈاکٹر عطاء الرحمن پاکستان کے ممتاز کیمیادان ہیں، جس نے پاکستانی اساتذہ کو دنیا میں نیا مقام اور تحقیق کو نیا جنم دیا، وہ2002 سے 2008تک وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اور چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن رہے۔ اس دوران وزارت سائنس کے ڈیولپمنٹ بجٹ میں چھ ہزار اور ہائیر ایجوکیشن کے بجٹ میں ساڑھے تین ہزار فیصد اضافہ ہوا۔ ان کی پالیسی کے ثمرات یوں سامنے آئے کہ اب بھارت کے سالانہ800 جبکہ پاکستان کے1000 کے قریب بین الاقوامی تحقیقی مقالہ جات شائع ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے ادارے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے یونیورسٹیوں کے مالی خسارے کو کم کرنے کیلئے یونیورسٹیوں کے اٹانومی کو چیلنج کر دیا ہے جس میں انہوں نے نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کی پنشن اور دیگر مراعات میں کمی کر دی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے فیصلے یونیورسٹی کے اندورنی معاملات میں ڈائریکٹ مداخلت ہے، سیاسی مداخلت تو پہلے سے ہی ہر یونیورسٹی میں موجود ہے خاص کر علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے کی مداخلت سے کوئی بھی یونیورسٹی خالی نہیں ہے۔ اب حالیہ حکومتی مداخلت خیبر پختونخوا یونیورسٹی ایکٹ 2012 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ یونیورسٹی کے ایکٹ سیکشن 3/6کے تحت تمام یونیورسٹیاں اپنے اکیڈمک، فنانشل، ایڈمنسٹریٹو اور دیگر ملازمین کی ذمہ دار ہیں یعنی حکومتی لیٹر اس شق کی نفی کرتی ہے۔ اس کیساتھ ہی سیکشن 4) 6(میں ہے کہ تمام یونیورسٹیاں ملازمین کی شرائط وضوابط کی ذمہ دار ہے وہ جس طرح بھی چاہیں، جو حکومت کے دوسرے اداروں کے شرائط وضوابط سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں یعنی یہ بتاتی ہے کہ یونیورسٹیاں اپنے قواعد وضوابط اپنے قوانین یعنی سٹیچوٹس میں ملازمین کی بھرتی کیلئے خود سے فیصلے کرنے میں خودمختیار ہیں اور حکومت کبھی بھی اپنے قوانین جس میں تنخواہ، پنشن اور ملازمین کے دیگر مراعات کو قطعاً بھی نظرانداز نہیں ہوسکتی۔ یونیورسٹی ایکٹ کے سیکشن 6 کے ہی ایک شق میں یہ لکھا گیا ہے کہ یونیورسٹی معاشی طور پرخود کو مضبوط اور فعال بنانے کیلئے اپنے طور پر ریونیو پیدا کرنے کیلئے فیصلے کرسکتی ہے تاکہ یونیورسٹی معاشی طور پر مستحکم ہو اور یہ فیصلے بھی صرف یونیورسٹی کرسکتی ہے حکومت کا اس میں بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ اسی خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یونیورسٹیاں اپنے اکیڈمک بلاک یعنی عمارتوں کو شام کے وقت دیگر اداروں یا تنظیموںکو کرائے پر دے سکتی ہے جو کہ ایک بچگانہ فیصلہ ہے۔ سیکشن (c)28 میں لکھا گیا ہے کہ تمام یونیورسٹیاں خود پنشن، گریجویٹی، پروویڈنٹ فنڈ اور بینوولنٹ فنڈ کا تعین کریں گی اور یہی شق پنشن اور دیگر مراعات کا بھی تعین کرتی ہے۔ یعنی مذکورہ بحث کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکومت نے خیبر پختونخوا یونیورسٹی ایکٹ کی خود ہی بے حرمتی کی ہے اور یہ کبھی بھی نافذ نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ خط یونیورسٹی ایکٹ2012کے ساتھ متصادم ہے، اور دوسری جانب یہ حکومت کی مکمل طور پر یونیورسٹیوں کی خودمختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور یہ صرف ایک یونیورسٹی کی خودمختاری کو چیلنج نہیں کیا جارہا بلکہ خیبر پختونخوا کی ساری یونیورسٹیوں کی خودمختاری پر ایک کاری ضرب لگایا گیا ہے، اور حکومت کی ان غلط پالیسیوں کی وجہ سے حکمران جماعت اپنی اہمیت کھوتی جارہی ہے۔ اگر اب یونیورسٹیاں حکومت کے جھانسے میں آجاتی ہے تو اس سے ان کی خودمختاری کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اب بھی حکومتی پالیسیوں کی بدولت تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی بیروزگار ہیں اور اس مجوزہ پالیسی کے بعد سرکاری یونیورسٹیوں میں کوئی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر نہیں آئے گا، جس اعلیٰ تعلیم کی بنیاد ڈاکٹر عطاء الرحمان نے 2002 میں رکھی تھی، پاکستان پھر سے اس سے پہلے کے دور میں واپس چلا جائے گا، جب ملک میں گنے چنے پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہوا کرتے تھے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی