p613 237

مشرقیات


حضرت سعد بن ابراہیم خلیفہ ولید بن یزید کی طرف سے مدینہ منورہ کے قاضی مقرر تھے ۔ ایک مرتبہ ولید نے آپ کو اپنے پاس ملک شام میں بلایا ، چنانچہ آپ ایک بااعتماد شخص کو مدینہ منورہ میں قاضی بنا کر خود ملک شام کی جانب چل دیئے ۔ جب آپ شام کی سرحد پر پہنچے تو آپ کو شہر سے باہرہیں روک دیا گیا اور کافی عرصہ تک داخلہ کی اجازت نہ ملی ۔ ایک رات آپ مسجد میں مصروف عبادت تھے کہ ایک شخص کو دیکھا کہ نشے کی حالت میں بد مست ہے او رمسجد میں گھوم رہا ہے ۔ یہ دیکھ کر آپ نے پوچھا : ”یہ شخص کون ہے ؟” لوگوں نے بتایا : یہ خلیفہ ولیدبن یزید کا ماموں ہے ، اس نے شراب پی ہے اور اب نشے کی حالت میں مسجد کے اندر گھوم رہا ہے ۔ یہ سن کر آپ کو بہت جلال آیا کہ یہ کتنی دیدہ دلیری سے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کر رہاہے اور اس کے پاک در بار میں ایسی گندی حالت میں بے خوف گھوم پھر رہا ہے ۔ آپ نے غلام کو درہ لانے کا حکم فرمایا ۔ غلام نے درہ (کوڑا) دیا ۔ درہ لے کر آپ نے فرمایا : ”مجھ پرلازم ہے کہ میں اس پر شرعی سزا نافذ کروں ، چاہے یہ کوئی بھی ہو ، اسلام میں سب برابر ہیں ۔چنانچہ آپ آگے بڑھے اور مسجد میںہی اس کو 80کوڑے مارے۔ وہ شخص 80کوڑے کھانے کے بعد نہایت زخمی حالت میں خلیفہ ولید بن یزید کے پاس پہنچا ۔ خلیفہ نے جب اپنے ماموں کی یہ حالت دیکھی تو بہت غضب ناک ہوا اور پوچھا : تمہاری یہ حالت کس نے کی ؟ کس نے تمہیں اتنا شدید زخمی کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا : ایک شخص مدینہ منورہ سے آیا ہوا تھا ، اس نے مجھے 80کوڑے سزادی اور کہا : یہ سزا دینا اور حد قائم کرنا مجھ پر لازم ہے ۔ خلیفہ نے جب یہ سنا تو اس نے فوراً حکم دیا کہ ہماری سواری تیار کی جائے ، اسی وقت حکم کی تعمیل ہوئی اور خلیفہ کچھ سپاہیوں کو لے کر آپ کے پاس پہنچ گیا اور آپ سے کہا : اے ابو اسحاق ! تو نے میرے ماموں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا ، اسے اتنی درد ناک سزا کیوں دی ؟ حضرت سعد بن ابراہیم نے فرمایا : اے خلیفہ ! تو نے مجھے قاضی بنایا تاکہ میں شریعت کے احکام نافذ کر وں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دوں ۔ چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ سرعام حق تعالیٰ کی نافرمانی کی جارہی ہے اور یہ شخص نشے کی حالت میںاللہ تعالیٰ کے دربار میں گھوم پھر رہا ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں تو میری غیرت ایمانی نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ میں خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہوتے دیکھوں اور تمہاری قرابت داری کی وجہ سے چشم پوشی کروں اور شرعی حدود قائم نہ کروں ۔اسلام کا درس ہی یہی ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں کسی کو عہدے دولت یا ذات کی بیناد پر برتری حاصل نہیں یہی معاشرے میں انصاف اور امن کی ضمانت بھی ہے ۔
(عیون الحکایات ،ص، 163-164)

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن