چلغوزہ منڈی

ایشیا کی سب سے بڑی منڈی میں چلغوزے کا کاروبار ٹھپ

ویب ڈیسک :ایشیا کی سب سے بڑی چلغوزہ منڈی میں چلغوزے کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے، ڈیور نڈ لائن کے آ ر پار علاقے میں پھیلے چلغوزے کے ہزاروں باغات تک رسائی میں مالکان کو مشکلات کا سامنا ہے، وقت پر رسائی نہ ہو نے کی وجہ سے باغات میں چلغوزے ضائع ہو نے لگے، شمالی وزیرستان کے تاجروں کیساتھ ساتھ حکومت پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے.
گزشتہ ایک دہائی سے چلغوزے کا کاروبار شمالی وزیرستان کے عوام کا منافع بخش کاروبار قرار دیا گیا چونکہ چلغوزے کے پہاڑ افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع شوال میں پا ئے جاتے ہیں جسے قبائلی قدرت کی جانب سے ایک تحفہ سمجھتے ہیں اور یہ شمالی وزیرستان کے قبائلیوں کی ملکیت ہے آپریشن ضرب عضب کے بعد بارڈر سیل کر کے یہاں پر خاردار تاریں بچھائی گئیں جس کے باعث چلغوزے کے کافی باغات افغانستان میں رہ گئے جبکہ بارڈر کے اِ س طرف پا ئے جانے والے باغات تک اپنے مالکان کی رسائی مشکل ہو گئی ہے.
بنوں آزاد منڈی جو کہ چلغوزے کیلئے مشہور ہے اور یہ ایشیاء کی سب سے بڑی منڈی ہے یہاں سے چائنہ اور خلیجی ممالک کیلئے اربوں روپوں کا چلغوزہ ہر سال سپلائی کیا جا تا ہے، بنوں آزاد منڈی میں کئی سال پہلے ہر طرف چلغوز ے ہی چلغوزے دکھائی دے رہے تھے اور یہاں پر دور دور سے اس کاروبار سے وابستہ تاجر آ یا کرتے تھے مگر اِ ن دنوں منڈی میں وہ گہما گہمی دکھائی نہیں دے رہی، اس حوالے سے بین الاقوامی تاجر ملک لائر خان نے مشرق کو وجوہات بتائیں اور کہا کہ شمالی وزرستان اور بارڈر انتظامیہ چلغوزے کے باغات کیلئے ہمارے تاجروں کو وقت پر انٹری نہیں دیتے،تاخیری حربوں اور کمیشن کے چکر میں بروقت باغات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے چلغوزے کے باغات کا پانچواں حصہ بمشکل سالم رہتاہے باقی ضائع ہو جاتا ہے شمالی وزیرستان کے لوگ اپنے باغات سے محروم ہو گئے ہیں
اپنے ہی چلغوزے کیلئے ہمیں بھاری کمیشن دینا پڑتا ہے، نقصان کے باعث منڈی میں مزدوراور ٹھیکیدار روز آپس میں الجھ پڑتے ہیں، غلام خان بارڈر پر تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں، کسٹم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایک کلو چلغوزے پر 700 روپے کسٹم ڈیوٹی لی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ تاجروں نے افغانستان میں پڑے باغات کا مال براہ راست چائنہ سپلائی کر نا شروع کر دیا ہے جس سے ہمارے ملک کو ایک کھرب روپے کا نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے، اُنہوں نے کہا کہ اس کاروبار سے دو لاکھ مزدور روزی روٹی کماتے تھے لیکن اب پنجاب میں جتنے بھی چلغوزے کی فیکٹریاں تھیں وہ بند پڑی ہیں اُنہوں نے کہا کہ حال ہی میں جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ نے اجازت دی ہے جو کہ ایک کلو چلغوزے پر 250 روپے ٹیکس لیتے ہیں لیکن اب امارات اسلامیہ افغانستان کی حکومت سے بھی ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے اپنے باغات کے چلغوزے پاکستان در آمد کر نے کیلئے مکمل اجازت دے دیں
کیونکہ وزیرستانیوں کا اب یہی ایک کمانے کا ذریعہ با قی ہے اسی طرح شمالی وزیرستان کی انتظامیہ سے بھی ہمارا یہ پر زور مطالبہ ہے کہ شوال میں چلغوزے کے باغات تک رسائی کیلئے بروقت انٹری فراہم کی جائے تاکہ تاجروں کا بھی نقصان نہ ہو اور قومی خزانے کو بھی فائدہ پہنچے۔

مزید پڑھیں:  مخصوص نشستیں، الیکشن کمیشن کا تیسرا اجلاس بھی بے نتیجہ ختم