کبھی خوشی’ کبھی غم

انسانی سوچ کی وسعت اور بلند پروازی’ تخیل کی کوئی حد نہیں ہے۔ بے شک انسان ایک حد کے اندر تقریباً ہر کام کر سکتا ہے لیکن وہ اس دنیا میں کچھ بھی کرلے دو چیزیں ایسی ہیں جن سے وہ اس دنیا میں چھٹکارا پانہیں سکتا اور وہ ہے خوف اور غم۔ اگر آپ بھی غور کریں تو آپ کو بھی محسوس ہوگا کہ آپ جتنے مرضی اچھے حالات میں ہوں، جتنی بھی کامیاب زندگی گزار رہے ہوں لیکن کسی نہ کسی چیز کا غم آپ پر ہر وقت حاوی رہتا ہے۔ خوشی اور غم انسانی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں، انسان اگر یہ چاہے کہ اس کی زندگی میں ہمیشہ خوشی رہے اور غم کا کوئی واسطہ نہ رہے تو ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ خوشی کیساتھ غم کا ہونا بھی انسان کی زندگی کیلئے ناگزیر ہوتا ہے۔ قدرت کے کھیل بھی نرالے ہیں، اگر خوشبو دینے کیلئے پھول اُگائے ہیں تو چبھنے کیلئے کانٹے بھی پروان چڑھائے ہیں۔ اگر ہم چاہیں کہ باغ میں پھول ہی پھول ہوں اور کانٹوں کا وجود ہی نہ ہو تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ دراصل دکھ سکھ کے پیمانے ہر آدمی کے اپنے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آدمی اپنے ڈھنگ سے جیتا ہے، اپنے ڈھنگ سے خوشی حاصل کرتا ہے اور اپنے دکھوں سے دوچار ہوتا ہے۔ آپ لاکھ جتن کریں، کڑھتے رہیں، اپنے احساسات دوسروں پر لاد نہیں سکتے۔ ”انسانی زندگی کے سمندر کا جوش اور ولولہ حالات کی موجوں کے اُتار چڑھاؤ سے وجود میں آتا ہے۔ کبھی بہار ہے تو کبھی خزاںِ، کبھی وصل ہے تو کبھی جدائی، کبھی صحت ہے تو کبھی بیماری حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
سکوت محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اللہ تعالیٰ نے خوشیوں اور دکھوں کے درمیان منطقی اعتبار سے ایک توازن قائم رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کرۂ ارض پر زندگی رواں دواں ہے جس طرح دنیا میں ہر چیز دو پہلوؤں پر مشتمل ہوتی ہے اسی طرح خوشی اور غم بھی انسانی حیات کیلئے لازم وملزوم ہیں۔ خلیل جبران نے کیا خوب کہا ہے ”ان دونوں کا آپس میں کچھ عجیب سا تعلق ہے، یہ دونوں ایک ہی لمحے میں کسی انسان کے اندر موجود ہوتے ہیں لیکن جو شخص ان میں سے ایک کو چاہتا ہے اسے عموماً دوسرے کو بھی قبول کرنا پڑتا ہے، اس کے جسم دو ہیں مگر ایک ہی سر میں جڑے ہوئے ہیں، اس لئے جہاں ان میں سے ایک پہنچا دوسرا بھی اس کے پیچھے پیچھے پہنچتا ہے۔ وہ دونوں ہمیشہ ایک ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ دئیے آیا کرتے ہیں۔ جس قدر زیادہ غم تمہارے اندر جاگزین ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ گنجائش خوشی کیلئے پیدا ہوتی ہے۔ سوز والم جس قدر تمہارے شعور کو کریدتا ہے اسی قدر تمہارے دل میں مسرت کیلئے وسعت پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہ رقیق دوا ہے جو تمہارا طبیب لبیب تمہیں دیتا ہے تاکہ تم شفا پاؤ۔ اپنے طبیب پر بھروسہ رکھو اور اس کی تلخ دوا کو خاموشی اور اطمینان کیساتھ پی جاؤ، اگرچہ اس کا ہاتھ سخت ہے اور تکلیف دیتا ہے مگر اس کا رہنما قدرت کا دست شفا ہی ہے۔ جس شخص نے غم وتلخیوں کو چکھ کر نہیں دیکھا وہ جام مسرت کی سرشاری سے کیا لطف اُٹھا سکے گا؟”
بقول مولانا وحیدالدین ”سکون اور سکوت میں حرارت پیدا کرنے کیلئے غم کا شعلہ رکھا ہوا ہے تاکہ انسان پر جونہی کوئی صدمہ پڑے اس کی تمام تر خوابیدہ اور خفیہ صلاحیتیں بیدار ہوجائیں اور یوں اسے زندگی کا مقابلہ کرنے کیلئے توانائی اور بالیدگی مل جاتی ہے۔ خوشی اور کامیابی سے انسان کو سیکھنے کو اتنا کچھ نہیں ملتا جتنا وہ غم اور ناکامی سے سیکھ جاتا ہے۔دنیا میں اگر سب خوش ہوتے تو یہ دنیا سطحی اور بے حس لوگوں کا قبرستان بن جاتی۔ دنیا کی رونق خوشی ومسرت اور درد والم کی بدولت قائم ودائم ہے۔ زندگی کی تلخیاں آدمی کی زندگی کیلئے وہی حیثیت رکھتی ہیں جو سونے اور چاندی کیلئے تپانے کی ہے۔ تپانے کا عمل سونے چاندی کو نکھارتا ہے اسی طرح تلخ تجربات انسان کی اصلاح کرتے ہیں اور بے چمک انسانوں کو چمکدار بنانے کا ایک اہم ذریعہ بنتی ہے۔ دکھ اور غم کی وجہ سے انسان میں پیش آمدہ بہت سے مسائل سے نبٹنے کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ ایسے تجربات کا سہارا ملتا ہے جس کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ یہ غم ہی تو ہے جو انسانوں کو پوری زندگی دکھا دیتا ہے، غم زندگی کی چاشنی بھی ہے، زندگی کا رس بھی ہے، یہ آپ کو راہ راست پر لے جانے کا حتمی ذریعہ بھی ہے، یہ دراصل زندگی کی نشانی ہے۔ غم وصدمات زندگی کے اس جمود میں حرکت پیدا کرنے آتے ہیں اور آپ کو شکستہ دل لوگوں کے غموں میں شریک ہونے کا دعوت دیتے ہیں” بقول شخصے ”خوشی اور غم دونوں زندگی کا لازمی حصہ ہیں کیوں نا ہم ان کو زندگی کا حصہ مان لیں، ذہنی طور پر ان کا عادی ہوجائیں۔ ان کو زندگی کا ایک لازمی ساتھی بنالیں کیونکہ اگر یہاں کی خوشیاں عارضی ہیں تو یہاں کے غم بھی مستقل نہیں۔ گلاس پورا بھرا ہوا نہیں، تو مکمل خالی بھی نہیں۔ اپنے دکھوں کیساتھ جینا، اپنی محرومیوں کے باوجود مسکرانا یہی زندگی ہے۔ یہ شاید آسان کام نہیں لیکن بہت مشکل بھی نہیں ہے”
کبھی لب پر ہنسی ہے اور کبھی آنکھوں میں پانی ہے
کبھی ہے غم اور کبھی خوشی یہی تو زندگانی ہے

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے