logo 62

مشرقیات

عرب میں ایک قبیلہ تھا طئے اس قبیلے کے بت کا نام تھا فُلس۔حضور اکرمۖ کے زمانے میں اس قبیلے کے سردار تھے عدی بن حاتم انکی بہن سفانہ۔٩ہجری کی ایک لڑائی میں پکڑی گئیں۔اس لڑائی کے سالار حضرت علی تھے۔حضور اکرمۖ کو جب معلوم ہوا کہ وہ حاتم کی بیٹی ہیں تو آپۖ نے حکم دیا کہ انہیں آزاد کردیا جائے آزادی ملی تو انہیں حیرت ہوئی۔قیدیوں کو کون آزاد کرتا ہے اور یوں بلاسعی وسفارش!مگر یہ تو رحمت عالم کا دربار تھا۔سفانہ قید سے چھوٹیں تو سیدھے آنحضرتۖ کی خدمت میں پہنچیں ۔عرض کیا کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں!آپۖ نے انہیں کلمہ پڑھایا۔اسلام لے آئیں تو اپنے قبیلے کے قیدیوں کی سفارش کی۔ان کی تعداد نو سو تھی اللہ کے رسولۖ نے سب کو آزاد کردیا۔یہ خوش خوش گھر گئیں اور بھائی عدی بن حاتم کو پیام بھیجا کہ تم بھی اسلام قبول کرلو دنیا اور آخرت میں تمہاری نجات کا یہی ذریعہ ہے چنانچہ شعبان١٠ہجری میں ان کے بھائی عدی بن حاتم حضورۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ایمان لے آئے۔حاتم کا زمانہ حضور اکرمۖ سے ذرا پہلے کا ہے یہ اللہ کا نیک بندہ دوسروں کا بڑا خیال رکھنے والا تھا بڑا سچا بڑا اچھا بڑاسخی بڑامہمان نواز! بڑا خوش اخلاق کہ اس کی باتوں میں پھولوں کی خوشبو تھی وہ بڑا دل والا اور بڑی ہمت والا بھی تھا۔ایک دن اس کے کچھ دوستوں نے اس سے پوچھا کہ تم نہ جانے کتنے آدمیوں سے مل چکے ہو۔طرح طرح کے لوگ تمہارے مہمان ہوتے اور تم سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔اللہ نے تمہیں بڑی اُونچی نظر اور بلند ہمت کا آدمی بنایا ہے ۔بس ایک بات بتائو کہ تم نے کوئی اپنے سے بھی بلند ہمت کا آدمی دیکھا ہے!۔اس نے کہا ایک دن میں نے چالیس اونٹ ذبح کئے اعلان عام کیا کہ سب کی دعوت ہے جس کا جی چاہے آئے اور کھائے۔میرے دسترخوان پر طرح طرح کے لوگ آئے امیروغریب عورت مرد بچے لوگ میرے گھر پر کھانے پینے میں لگے تھے کہ مجھے ایک ضرورت سے جنگل جانا پڑا جنگل میں،میں نے ایک لکڑہارے کو دیکھا کہ لکڑیاں کاٹ رہا ہے میں نے اس سے کہا بھلے مانس یہ تو کیا کر رہا ہے۔اس نے جواب دیا بھائی لکڑیاں کاٹ کر بستی میں لے جائوں گا بیچ کر اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالوں گا۔حاتم نے کہا سُنا نہیں کہ بستی میں ایک بہت بڑی دعوت ہورہی ہے تم بھی اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ وہاں جا کے کھا لیتے ۔اس محنت اور مصیبت کی کیا ضرورت تھی۔اس لکڑہارے نے جواب دیا بھیا!تم ٹھیک کہتے ہو۔بس اپنے اپنے اصولوں کا فرق ہے جو آدمی محنت کی روٹی کھاتا ہے وہ کسی کا احسان نہیں اُٹھاتا۔حاتم نے کہا اس شخص کی خوداری مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار