2 423

ضمنی انتخابات اور پی ٹی آئی سے عوام کی اُمیدیں

پی ٹی آئی کے ٹائیگر نوشہرہ میں اپنی ناکامی کو ناکامی سے ہم کنار نہیں کر رہے بلکہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں مقابلہ پی ٹی آئی کا پی ٹی آئی سے تھا اور پارٹی کے اپنے لوگوں نے غداری کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کو سپورٹ کیا اور یوں وہ جگہ جہاں سے پی ٹی آئی جیتتی آئی تھی وہاں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس اسٹیشن پر عوامی نیشنل پارٹی کی جو عزت افزائی ہوئی وہ دیکھنے لائق ہے۔ پی ڈی ایم کا ساتھ یہاں پر نہ دیتے ہوئے انہوں نے اپنا اُمیدوار کھڑا کیا جو دھندلکوں میں کھوگیا۔ اگر عوامی نیشنل پارٹی کا اُمیدوار نہ ہوتا تو شاید اس اسٹیشن پر حکومتی پارٹی کو اور زیادہ منہ کی کھانی پڑتی۔ مشرق ٹی وی پر اینکر محمد ارشاد کیساتھ ایم پی اے فضل الٰہی کا کلپ بہت وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ اختیار ولی کو کہہ رہے ہیں کہ نوشہرہ سے الیکشن جیت کر دکھاؤ تو، میں سیاست کو خیرباد کہہ دوں گا۔ اور اختیار ولی نے فضل الٰہی کا چیلنج قبول کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے اُمیدوار کو چت کر دیا جس کے بعد پشاور کے صحافی دوستوں نے ایم پی اے فضل الٰہی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے آڑے ہاتھوں لیا مگر وہ کہتے ہیں نا کہ سیاست جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے یہاں مفادات کی جنگ ہوتی ہے، کوئی کسی کا نہیں ہوتا کیونکہ شادی کا دلہا ایک ہوتا ہے اور باقی سارے باراتی ہوتے ہیں۔ گزشتہ رات سے پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکن ایک گومگو کیفیت میں ہیں، انہیں یقین نہیں آرہا کہ وہ نوشہرہ کی سیٹ ہار چکے ہیں۔ اگر میں یہاں ضلع کرک کی بات کروں تو ابھی سے آنے والے الیکشن کیلئے پیسے والے میدان میں پر تول رہے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ جن لوگوں نے اپنا سب کچھ پارٹی پر قربان کیا ہے ان کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ کچھ دوست تو اتنے مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں راستہ ملے تو وہ کوئی فلاحی تنظیم شروع کرکے علاقے کی خدمت کریں کیونکہ ان کے بقول اب تقریباً یہاں بھی وہی سیاست ہی ہو رہی ہے جو اور پارٹیوں کا خاصہ تھا، یعنی کہ تبدیلی کا نعرہ کہیں پر کھو گیا ہے۔ اس ضمنی الیکشن میں نوشہرہ میں ناکامی اور کرم میں کامیابی نے بہت سو کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے جبکہ این اے75 میں تو سننے میں آرہا ہے کہ دھند کے باعث الیکشن کا عملہ دیر سے آیا، اب اس میں کتنی سچائی ہے اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ دھند کے باعث گاڑیاں لیٹ ہوسکتی ہیں مگر دھند کے باعث ٹیلی فون نمبرات بند نہیں ہو سکتے، اب یہ سارا کیا چکر تھا یہ فی الحال معلوم نہیں۔ اس کے برعکس اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن نے ضمنی الیکشن کا یہ معرکہ سر کر لیا ہے۔ آخری نتائج آنے تک جو غیرمصدقہ ہیں، این اے75 ڈسکہ کے تمام 360پولنگ اسٹیشنز میں ن لیگ کی نوشین افتخار 185791ووٹ لیکر فاتح قرار پائیں جبکہ تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی 142311 ووٹ حاصل کر سکے۔ پی کے63 نوشہرہ میں مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کو اپ سیٹ شکست دیدی۔ مسلم لیگ ن کے اختیار ولی 21122ووٹ لیکر جیت گئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے میاں عمر 17023 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے جبکہ تحریک انصاف بھی ایک نشست جیتنے میں کامیاب رہی۔ تحریک انصاف ن لیگ کے ہاتھوں تین نشستوں پر شکست کھانے کے بعد قومی اسمبلی کی نشست این اے45 کرم پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ واضح رہے کہ این اے45 ضلع کرم کی نشست جے یو آئی ف کے رکن قومی اسمبلی منیر خان اورکزئی کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔ تاہم پی ڈی ایم کے مشترکہ اُمیدوار جے یو آئی ف کے ملک جمیل خان نشست ناصرف جیتنے میں ناکام رہے بلکہ وہ دوسری پوزیشن بھی حاصل نہ کر سکے۔ اسی طرح حلقہ پی پی51 کی نشست ن لیگ کے شوکت منظور چیمہ کے انتقال کے باعث، پی کے 63نوشہرہ کی نشست تحریک انصاف کے وزیر میاں جمشید الدین کاکاخیل کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی، جس پر پرویز خٹک کے بھائی کو تحفظات تھے، انہوں نے مکمل طور پر مسلم لیگ ن کو سپورٹ کیا جس کے باعث حکومتیپارٹی یہ سیٹ جیتنے میں ناکام ہوئی، جس پر وزیراعظم عمران خان نے سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے اور مسلم لیگ ن کی حمایت کرنے کے الزام پر صوبائی کابینہ سے بھی نکال دیا ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف اپنی پالیسیوں کے باعث جہاں تھی وہاں رُکی ہوئی ہے، دو سال گزرنے کے باوجود کوئی خاص قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ مہنگائی کے باعث عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں اور آنے والے سالوں میں نہیں لگتا کہ ان پالیسیوں میں کوئی تبدیلی آئے کیونکہ ملک بھر میں پارٹی کے اندر اختلافات موجود ہیں اور رہی سہی کسر پوری کرنے کیلئے پی ڈی ایم کی 11جماعتیں ملکر انہیں ٹف ٹائم دے رہی ہیں جس کا خمیازہ پی ٹی آئی کو مستقبل میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے، اگر حکومت اس روایتی سیاست کو لپیٹ دے تو عوام ان کیساتھ کھڑے ہیں، جلدی کریں کہیں دیر نہ ہو جائے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی