2 425

پشاور کی ایک خوبصور ت شام

پشاور کو پھولوں کا شہر کہا جاتا ہے تو اس حوالے سے اسے پھول نگر کہنا بجا ہوگا۔ اس شہر سے اسی کی دہائی سے یادوں کا ایک سلسلہ جڑا ہے جب پاکستان کے پہلو میں ایک خون آشام جنگ جاری تھی اور پشاور ملک بھر سے افغانستان جانے والوں کا اہم پڑاؤ ہوتا تھا۔ یونیورسٹی ٹاؤن کے سیف ہاؤس میں نوجوانوں کو اپنی باری کا انتظار کرنے میں کئی کئی دن لگتے اور اس انتظار کی بوریت دور کرنے کیلئے شہر کے در ودیوار پڑھنے نکل جانا معمول تھا۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تو اکثر مطالعاتی دوروں کا مرکز بھی اٹک کے اس پار طورخم تک کا علاقہ رہا۔ اسی کی دہائی کی طرح جنگ کا کردار آج بھی وہی ہے مگر دوسرا کردار بدل کر رہ گیا ہے۔ اس وقت یہ جنگ افغان مجاہدین اور سوویت یونین کے درمیان اور اب افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری ہے۔ پہلی جنگ کے مضر اثرات نے پورے پاکستان کو بالعموم اور پشاور کو بالخصوص متاثر کیا تھا اور دوسری جنگ کا بوجھ بھی سب سے زیادہ اسی شہر پر پڑا۔ یوں لگتا ہے کہ اس بوجھ سے تھوڑا ریلیف ملنے کے بعد پشاور نے دوبارہ مسکرانا شروع کیا ہے۔ اس کے پھولوں نے دوبارہ مہکنا اور اس کے باغوں نے دوبارہ پھلنا پھولنا شروع کیا ہے۔ خدا ان مسکراہٹوں کو دائمی بنا دے۔ ہفتہ کی شام خیبرپختونخوا کے ایک فوجی گھرانے سے تعلق رکھنے والی شخصیت کی صاحبزادی کی رخصتی کی تقریب تھی، ان کی بیگم بھی کرنل ڈاکٹر ہیں۔ ایک فوجی گھرانے کی تقریب ہو تو لامحالہ اس میں سابق فوجی حضرات کا غلبہ ہونا یقینی ہوتا ہے۔ سروسز کلب کی اس تقریب میں بھی ملک بھر سے سرجری اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے سابق فوجی افسروں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ سابقین فوج کے اس اجتماع میں’ میں واحد اخبارنویس تھا۔اس تقریب کا اہم موضوع ملکی حالات اور موجودہ حکومت کی پالیسیاں تھیں، محفل پر مجموعی طور پر عمران خان کی حکومت کی ہمدردی کا رنگ غالب تھا کیونکہ ملک کے عام آدمی کی طرح اس طبقے نے بھی دوجماعتی نظام کی دھینگامشتی اور غلط پالیسیوں کی بدولت تیسری طاقت کے اُبھار کا خواب دیکھا تھا۔ اب دوجماعتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس میں مزید شکست وریخت ہونا ابھی باقی ہے مگر بہت ارمانوں سے اُبھاری جانے والی تیسری طاقت بھی ملکی حالات پر اپنی گرفت قائم نہیں کر سکی۔ اب تو یہ تاثر عام ہے کہ موجودہ حکومت کا پہلا نقش ہی آخری بھی ہے۔ حکومت کو ڈلیور نہ کرسکنے کا امیج اب اس کیساتھ چلتا جائے گا اور زمینی حالات اور حقائق عوام کی بڑی تعداد کو تیسری طاقت سے بھی مایوس کر رہے ہیں۔ اس مایوسی کا مطلب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی حمایت ہرگز نہیں۔ یہ دونوں ماضی کی آزمودہ جماعتیں ہیں اور پیپلزپارٹی جس طرح سندھ کو چلا رہی ہے اس سے پارٹی کا رومانس بڑھنے کی بجائے کم ہو رہا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سے مایوسی کا نتیجہ ایک گمنام اور نامعلوم مسیحا کے انتظار کی اُمید کی صورت برآمد ہوتا تھا مگر اب المیہ یہ ہے پی ٹی آئی کی حکومت سے مایوسی بے سمت اور لامحدود ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ نہ تو کسی کے پاس اس کا جواب ہے اور نہ اس کا کہ اس کے بعد کیا ہونا چاہئے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی ٹیم ان کے ویژن کے عملی شکل میں ظاہر ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ راولپنڈی میں مقیم ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب سرجری کے شعبے سے وابستہ ہیں، ان کے خیال میں صحت کارڈ کی پالیسی سے وقتی فائدہ تو ہورہا ہے مگر آگے چل کر یہ پالیسی تباہ کن نتائج سامنے لائے گی۔ ہر بیماری کا ایک محدود سی رقم میں علاج ممکن نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ علاج کا معیار گر جائے گا، انشورنس کمپنی کو سارے معاملات ٹھیکے پر دینے سے کئی قباحتوں نے جنم لیا ہے۔ ڈاکٹروں کو پہلے سے لگی بندھی تنخواہ میں صحت کارڈ کی سہولت پر کام کرنے پر مامور کرنا ڈاکٹروں کو دل برداشتہ کرکے کسی اور ملک کا راستہ اپنانے پر مجبور کر دے گا۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ڈاکٹروں کو کسی اضافی سہولت کے بغیر ہی ان پر ہیلتھ کارڈ کا بوجھ بھی ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کو صحت کارڈ سے متعلق پالیسی میں طب کے شعبے کی رائے کو سننا اور سمجھنا چاہئے اور اس رائے کو پالیسی میں سمونا چاہئے بصورت دیگر یہ پالیسی بھی ناکامی کا شکار ہوگی۔ طب کے شعبے میں تو یہ رائے زیرگردش رہی ہے کہ شہباز شریف کے دور میں ینگ ڈاکٹرز پر ڈنڈے برسائے جانے کا مقصد انہیں ملک چھوڑ کر بیرونی دنیا کی راہ لینے پر مجبور کرنا تھا۔ اس طرح ایک تو ملکی معیشت پر بوجھ کم ہونا تھا تو دوسری طرف انہی پروفشنلز نے باہر سے ڈالر بھیج کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا تھا۔ اپنے ٹیلنٹ کے بارے میں اگر یہ سطحی رویہ اپنایا جائے تو پھر اس ملک ومعاشرے کا یہی حال ہوتا ہے جس سے آج پاکستانی معاشرہ دوچار ہے۔ قصۂ کوتاہ حکومت کو نان فنکشنل ہونے کے تاثر کو بدلنا ہوگا جو اب اس کے حامی اور ہمدردوں کے حلقوں تک سرایت کرتا جا رہا ہے۔ ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن