p613 276

بعداز سینٹ انتخابات

سینٹ کے انتخابات کی تکمیل کے بعد ملکی سیاست میں ہلچل کی کیفیت بڑھنے کا قوی امکان ہے سینٹ کے انتخابات اور نئے ایوان بالا کی تکمیل نو کے مراحل میں ایک تسلسل ہے حکومت اور حزب ا ختلاف کے درمیان انتخابات کے بعد سیاسی رشہ کشی شروع ہو گی۔ مارچ 2018ء میں حیرت انگیز طور پر منتخب اور چیئرمین سینٹ بننے والے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین گیارہ مارچ کو اپنے عہدوں کی مدت پوری کریں گے یوں سینٹ کے ممبران کے انتخاب کے بعد حکومت اور حزب اختلاف کی بینچوں کے درمیان پہلا مقابلہ ان دو عہدوں کے لئے ہو گا اس حوالے سے حالات کے رخ کا حتمی تعین تو سینٹ کے حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد ہی ہو گا تحریک انصاف کی جانب سے کرشمہ ساز صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ کے عہد کے لئے ایک مرتبہ پھر آگے کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ وہی چیئرمین سینٹ کے امیدوار ہوں گے دوسری جانب بشرط کامیابی حزب اختلاف کی جانب سے چیئرمین سینٹ کے لئے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی تقریباً متفقہ امیدوار ہیں چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے بعد مختلف کمیٹیوں کے لئے چیئرمین اور ممبران کے انتخاب کے لئے دوڑ دھوپ ہو گی۔ حکومت کی جانب سے سینٹ انتخابات کو صاف اور شفاف بنانے کے لئے بڑے جتن کئے گئے حکومت کی خواہش تھی کہ سینٹ کے ممبران کا انتخاب شو آف ہینڈز کے ذریعے ہو ان سطور کی اشاعت تک خفیہ ووٹنگ کے اثرات سامنے آچکے ہوں گے حکومت کا موقف اگر سیاسی نہیں اور حکومت واقعی ہارس ٹریڈنگ اور جماعتی وفاداریاں تبدیل کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی خواہاں ہے تو چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ا علانیہ ووٹ کے ذریعے کرنے کی ایک مرتبہ پھر کوشش کرے گی اس کا انحصار انتخابی نتائج پر بہرحال ہوگا قطع نظر کہ ا نتخابات کا نتیجہ کیا آتا ہے ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے حزب اختلاف اور حکومتی اراکین اسمبلی وفاداری نبھاتے ہیں شفافیت کا تقاضا ہے کہ آئندہ کے لئے حکومت اور حزب اختلاف دونوں آئین میں ترمیم کرکے ہاتھ اٹھا کر انتخاب کے طریقہ کار پراتفاق کریں تاکہ آئندہ کبھی بھی سینٹ کے انتخابات اور چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں راز داری کے باعث تنازعات کا خاتمہ ہو قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کا انتخاب اعلانیہ ووٹنگ کے ذریعے ہوسکتا ہے تو پھر چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں ایسی کیا قباحت ہے ۔ علانیہ ا نتخاب رائے عامہ اور حکومت ہی کا مطالبہ نہیں بلکہ میثاق جمہوریت میں بھی اس پر اتفاق کر لیا گیا تھا جس پر عملدرآمد میثاق جمہوریت کی قومی و اخلاقی ذمہ داری ہے ۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جہاں سیاسی جماعتوں کے مفادات ہوں وہاں تو بدترین مخالفین سے بھی مفاہمت کرلی جاتی ہے پنجاب میں سینیٹروں کے بلامقابلہ انتخاب پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے تو باقی صوبوں میں ایسا کیوں نہ ہوا اس کا بھی جواب ان سطور کی اشاعت تک مل چکا ہو گا۔موجودہ انتخابات کی تیاریوں کے دوران لگائے گئے الزامات کی حقیقت کیا ہے اس سے قطع نظر خواہ الزامات درست نہ بھی ثابت ہوں تب بھی دنیا میں پارلیمان کے وقار اور عوام کی نظروں میں اسے باوقعت بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ایسا نظام تشکیل دیا جائے کہ شفافیت پر حرف نہ آئے اگرچہ بلامقابلہ انتخاب بھی گٹھ جوڑ اور ایک دوسرے سے سودے بازی ہی کی ایک شکل ہے جس میں دوسروں کی سیاسی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ کے حصول کی سعی ہوتی ہے لیکن بہرحال یہ ایک سیاسی طریقہ ہے جو واضح اور قابل قبول و معروف ہے اس پر ہر مرتبہ اتفاق ضروری نہیں جس کے بعد بہرحال واحد راستہ ا علانیہ ووٹنگ کا ہے جس کی طرف پیش رفت حکومت کی ذمہ داری ہے حکومت اس معاملے میں سینٹ کے انتخابات میں حزب اختلاف کی حمایت حاصل نہ کر سکی مگر بعد میں حزب اختلاف کا رویہ تبدیل ہونا فطری امر ہوگا یوں مفاہمت کی فضا میں ایک ایسے عمل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے جس سے ملک میںنوٹوں کی بوریوں کا منہ کھول کر انتخاب لڑنے کے مواقع کا خاتمہ ہو گا اور صاف و شفاف انتخاب سے ایوان کا وقار بلند ہو گا۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی یہ واضح ہے کہ آئینی ترامیم پارلیمنٹ کا کام ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ متنازعہ امور کا فیصلہ پارلیمنٹ ہی کرے اور سیاستدان پارلیمان کو اتنا مضبوط بنائیں کہ سارے فیصلے اسی کے ذریعے ہوں ایسا تب ہی ممکن ہوگا جب اس کو متنازعہ بنانے اور اس سے متعلق معاملات کو صدارتی ریفرنس کے ذریعے عدالتوں میں لیجانے کی بجائے اسی کے اندر فیصلہ ہو۔عدالت نے الیکشن کمیشن کو جو ہدایات دی ہیں ان کو عملی صورت دینے کیلئے بھی مشاورت اور مفاہمت کی ضرورت ہے عدالتی رہنمائی بھی متنازعہ ہونے کی صورت میں ایک مرتبہ تشریح ووضاحت کیلئے عدالت سے رجوع کی ضرورت پڑے گی جس میں مزید وقت ضائع ہوگا۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ