4 32

امریکہ پاکستان کا بیس سال کا حساب برابر کرے

امریکہ افغانستان میں تقریباً بیس سال سے جنگ لڑ رہا ہے اور پاکستان اتنے ہی سالوں سے اس پرائی جنگ کی سزا بھگت رہا ہے۔ ہزاروں جانوں کی قربانی اور اربوں روپے کا مالی نقصان الگ۔ دھماکوں اور بدامنی نے پاکستانیوں کے شب وروز کے معمولات کو بُری طرح متاثر کیا۔ تجارت، صنعت، معیشت، ترقی سب جھٹکوں اور دھکوں سے چلتی رہی اور ہم اُس9/11 کا خمیازہ بھگتتے رہے جو نہ پاکستان سے ہوا تھا نہ پاکستانیوں نے کیا تھا لیکن افغانستان کا پڑوسی ہونے کی سزا کے طور پا کستان بلاوجہ اس جنگ میں اُلجھا رہا۔ اس سے پہلے سوویت یونین کے افغانستان پر حملے اور مداخلت نے پاکستان کو بے شمار مسائل سے دو چار کیا اور اس سے نکلے چند ہی سال ہوئے تھے کہ امریکہ آگیا۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں اور خطے میں عوام کے نہ چاہتے ہوئے بھی امریکہ اتحادی ہونے کے باوجود ہم امریکہ کو خوش نہ کر سکے۔ حالیہ افغان جنگ میں پاکستان نے محتاط اندازے کے مطابق ستّر ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی، مالی خسارے کا اندازہ لگانا تو ناممکن ہے، امریکہ کو تزویراتی مدد بھی دی گئی لیکن ہمیشہ امریکہ نے ان سارے اقدامات کو ناکافی قرار دیا اور ڈومور کا مطالبہ کرتا رہا اور اُس نے اپنی کمزوریاں بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈالیں۔ افغانستان میں افغان حکومت کی مدد سے پاکستانی دہشتگردوں کو پناہ دی جاتی رہی اور ساتھ ہی افغانستان سے افغان دہشتگرد تیار کرکے پاکستان بھیجے جاتے رہے۔ اس سب کچھ میں تو پاک فوج کی ہمت سے نمایاں کمی ضرور آئی ہے لیکن یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، اب بھی دہشتگردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے اپنے محدود وسائل میں پاک افغان سرحد پر جو محیرالعقل حفاظتی باڑ لگائی ہے اس نے آزادانہ نقل وحمل کو کافی حد تک روک دیا ہے جس سے پاکستان کی دہشتگردی ختم کرنے کے بارے میں سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ ہمیشہ ڈومور کا مطالبہ کرتا رہا لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ امریکہ اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔ وہ خود ڈومور کرے اور پاکستان سے اب مزید کسی غیرمعمولی مدد کی توقع نہ رکھے کیونکہ پاکستان اپنے پچھلے تقریباً سترّ سالہ طویل تجربے سے یہ سیکھ چکا ہے کہ اچھے تعلقات قائم رکھنے کیلئے صرف اکیلے اُسے ہی نہیںکرنا امریکہ بھی اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دے کہ وہ پاکستان کو اپنا اتحادی سمجھتا ہے فرمانبردار نہیں۔ امریکہ نے پاکستان سے ہمیشہ اپنی مرضی کی توقع رکھی ہے جبکہ خود اُس نے کبھی بھی پاکستان کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے عملی اقدامات نہیں کئے۔ اب بھی امریکی صدر ٹرمپ نے ایک سے زائد مرتبہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے لیکن عملاً بھارت کو نہ کبھی پہلے اور نہ اب کشمیر میں غیرانسانی رویوں اور سلوک پر روکا اور نہ ہی اُس پر یہ دباؤ ڈالا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرے جبکہ وہ یہ توقع ضرور رکھتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں اُس کی مرضی کے مطابق کام کرتا رہے چاہے اس کیلئے اُسے اپنی قومی سلامتی کیخلاف کام کرنا پڑے۔ امریکہ بارہا سی پیک پر اعتراض بھی کر چکا ہے اور اس نے اس کیخلاف پروپیگنڈا بھی کیا ہے جبکہ بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے اسے اپنے معاہدے کرنے یا توڑنے کا اختیار حاصل ہے اور کسی اور کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کے اندورنی معاملات میں مداخلت کرے یا اس کے کسی ملک سے تعلقات پر تنقید کرے لہٰذا امریکہ کو اس سلسلے میں اپنے روئیے اور پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی اور اس منصوبے کے بارے میں پروپیگنڈے سے بھی اجتناب کرنا ہوگا۔ اب تک پاکستانی حکومتیں اپنے عوام کی مرضی کیخلاف اور عوام مجبوراً امریکہ کیلئے اپنی جانیں اور وسائل تباہ کرتے رہے ہیں۔ مزید برآں امریکہ کو پوری دنیا بلکہ خاص کر اسلامی دنیا میں کسی بھی جگہ سٹیج سجانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے جو انتہائی افسوس کیساتھ لیکن ماننا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کی اپنی کمزوریوں اور نااتفاقیوںکے باعث مسلسل ہو رہا ہے۔ اسی امریکہ کا رویہ مسلمانوں کیخلاف کچھ اور دیگر ممالک کیلئے کچھ اور ہے ورنہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اس کی طرف سے بھارت کے کشمیر میں غیرانسانی اقدامات پر کبھی کبھار کے معمولی زبانی جمع خرچ کے علاوہ کبھی کچھ نہیں کیا گیا اور نہ ہی بھارت کو اپنے مسلمان شہریوں کے بارے میں کسی پالیسی اور سلوک پر تنقیدکا نشانہ بنایا گیا نہ اسے روکا گیا۔
پاکستان نے امریکہ کیلئے اپنی کم ازکم دو نسلوں کو جس ذہنی کرب سے گزارا ہے پہلے تو اس کا حساب چکانا ہوگا پھر جو مالی نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ کرنا ہوگا اور معیشت کو جس طرح برباد کیا گیا اُسے بحال کرنے میں بھی پاکستان کیساتھ ملکر کام کرنا ہوگا۔ اسے یہ بات سمجھنی بھی ہوگی اور تسلیم بھی کرنی ہوگی کہ پاکستان اپنی ”بلاضرورت” باری کر چکا ہے اور اب اُس کی باری ہے اُسے پاکستان کا حساب برابر کرنا ہے اور اس کے بیس سال کی واپسی بھی ممکن بنانی ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا