2 438

جنوبی ایشیا میں نئے ”پیس پروسیس” کا خواب

کل جماعتی حریت کانفرنس کے نظر بند راہنما میر واعظ مولوی عمر فاروق نے خانہ نظر بندی کے عالم میں بی بی سی کو ایک اہم انٹرویو دیا ہے۔ اس انٹرویو سے کشمیر کے موجودہ حالات اور مستقبل کے معاملات کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔میرواعظ کے انٹرویو کے ساتھ ساتھ جلاوطن کشمیری راہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی نے بھی ایک مضمون میں مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کی ہیں ۔دونوں کشمیری راہنمائوں کے خیالات کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان سیز فائر معاہدے کی تجدید ایک خوش آئند آغاز ہے مگر اس کو بامعنی بنانے کے لئے اس سمت میں کئی اہم اقدامات اُٹھانا ہوں گے ۔ اپنے انٹرویو میںمیرواعظ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ حریت کانفرنس کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان اور بھارت کی قیادت سے مذاکرات کئے جس کا مطلب ہے کہ کشمیری جنگ وجدل نہیں چاہتے اور جلد یا بدیر مسئلے کو پرامن انداز سے حل ہونا ہے ۔مودی کو واجپائی کی سوچ کو اپنا کر پاکستان اور کشمیریوں سے بات کرنا چاہئے ۔میرواعظ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ بھارت نے کشمیر میں جو تبدیلیاں کی ہیں وہ کشمیرکے زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتیں۔بھارت ہمیں نظر بند رکھے یا آزاد ہمارا موقف تبدیل نہیں ہوگا ۔میرواعظ عمر فاروق انیس ماہ سے نظر بند ہیں اور خود ان کے بقول وہ بیاسی جمعے جامع مسجد میں خطاب اور نماز ادا نہیں کر سکے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان سیزفائر ہونے کے بعد سب سے پہلی خبر یہی ملی تھی کہ میرواعظ عمر فاروق کی نظر بندی ختم کی جا رہی ہے اور وہ جامع مسجد میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کریں گے ۔ایسا نہ ہوسکا اور جامع مسجد اور اس کے گرد نواح کا علاقہ ایک بار پھر سراپا احتجاج بن گیا ۔کشمیری نوجوان پتھر ہاتھوں میں لئے گلیوں میں نکل آئے اور ان کے لبوں پر پاکستان زندہ باد اور بھارت کے لئے تلوار ہیں ہم کے نعرے تھے ۔یہ جامع مسجد ہی نہیں بلکہ پانچ اگست2019کے بعد کشمیر میں عارضی سکون اور سکوت کی چادر میں عوامی جذبات کا پہلا چھید تھا ۔جس نے یہ بتادیا کہ کشمیریوں کے جذبات ، احساسات اور مطالبات کا گراف وہیں ہے جہاں چار اگست کوتھا صرف بھارت نے طاقت کے ذریعے ایک خوف کی فضا قائم کر کے کشمیریوں کو وقتی طور پر خاموش کر ادیا تھا ۔جوں جوں جبر اور خوف کا ماحول ختم ہوگا تو کشمیریوں کے جذبات کا آتش فشاں ماضی کے کئی ادوار کی طرح پھٹ پڑے گا ۔اس سکوت اورسکون کی وجہ بھی تھی کہ کشمیری قیادت کا باہمی اوران کا عام آدمی کا رابطہ کاٹ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے عام آدمی تک قیادت کا لائحہ عمل اور پروگرام نہیں پہنچ رہا تھا ۔یہ احساس بھارت کو پوری طرح تھا اسی لئے بھارت نے کشمیر پر اپنی گرفت ڈھیلی کرنے میں خاصا عرصہ لگادیا۔ سری نگر کی صدیوں سے قائم جامع مسجد کشمیر کے اسلامی تشخص کی علامت اور پہچان ہے ۔جامع مسجد ایک ادارہ ہے جو کشمیریوں کی سیاسی اور مذہبی راہنمائی کرتا ہے اس مسجد کا نگران میرواعظ خاندان ہے اور میرواعظ کو وادی اور سر ی نگر کی ثقافت اور روز مرہ کی زندگی میں وہی حیثیت حاصل ہے جو ویٹیکن سٹی میں پوپ کو حاصل ہوتی ہے ۔میرواعظ ہر جمعہ کے اجتما ع سے خطاب کرتے ہیں اور دینی موضوعات پر بات کرنے کے علاوہ یہاں کشمیر سمیت سیاسی امور پر بھی بات کی جاتی ہے ۔جامع مسجد اور اس کے گرد ونواح کا علاقہ قیام پاکستان سے پہلے ہی سخت گیر پرو پاکستان سوچ اور جذبات کا مرکز رہا ہے۔جامع مسجد کی اسی حیثیت کو دیکھتے ہوئے بھارتی حکومت نے پانچ اگست سے پہلے ہی مسجد کو خاردار تاروں میں محصور کرکے صدر دروازے پر تالے لگا دیئے تھے ۔یوں تاریخ میں پہلی بار جامع مسجد سجدہ گزر جبینوں اور روح پرور نظاروں کو ترس رہی تھی ۔اب میرواعظ عمرفاروق مشرف من موہن امن عمل میں کشمیر کے آزادی پسند جذبات کے نمائندے تھے ۔اسی عرصے میں انہوں نے بھارت کے دو وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ اور دو وزرائے داخلہ سے ملاقاتیں کرنے کے علاوہ پاکستان میں جنرل پرویز مشر ف سے ملاقاتیں کی تھیں ۔اسے سہ فریقی کی بجائے تکونی مذاکرات کہا گیا تھا ۔یہ عمل ناکامی سے دوچار ہوا تھا اور اب میرواعظ دوبارہ اسی ٹوٹے ہوئے دھاگے کو جوڑنے کی بات کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پھنسے ہوئے معاملات کو آگے بڑھانے کا یہی ایک راستہ ہے۔ایک ایسی قوم جو چوہتر برس سے تشدد کا نشانہ بنی ہوئی ہے امن کی سب سے بڑی خواستگار ہے۔پاکستان او ربھارت کے درمیان امن کی ہر کوشش کا خیرمقدم ہونا چاہئے کیونکہ کشمیر کی زمین اس وقت کھلی جنگوں اور پراکسی جنگوں کا میدان بن کر رہ گئی ۔اس کی ساری قیمت کشمیری عوام کو چکانا پڑ رہی ہے ۔اس لئے موجود سیز فائر کے بعد سرنگ کے دوسرے سرے پر جو روشنی نظر آرہی ہے سب کا فرض ہے کہ اسے حقیقت بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔آئیڈیل ازم کا زمانہ گزر گیا حالات وواقعات نے ثابت کیا کہ اب کچھ لو اور کچھ دو اور سب کی فتح سب کی جیت کے اصول کو اپنا کر ہی مسئلے کا دائمی اور پائیدار حل نکالا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے