3 370

چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اُتر جاتا ہے

ابھی تو رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس منعقد ہونے میں بھی ایک روز باقی ہے یعنی اجلاس 13اپریل بروزمنگل کو ہونا ہے اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے اب کی بار اجلاس بھی پشاور میں منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ چند روز پہلے کمیٹی کے نئے سر براہ مولانا عبدالکبیر آزاد نے پشاور میں مسجد قاسم علی خان کی ایک صدی سے بھی پرانی مقامی کمیٹی کے سربراہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کیساتھ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے معاملات پر صلاح مشورہ بھی کیا اور دستیاب خبروں کے مطابق منگل 13اپریل کو ہونے والے اجلاس میں انہیںبہ نفس نفیس شرکت کی دعوت بھی دے رکھی ہے مگر گزشتہ روز اخبارات میں چھپنے والی خبروں کے مطابق مفتی پوپلزئی نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے محولہ اجلاس میں شرکت سے معذرت کر کے اپنی کمیٹی کا اجلاس الگ سے طلب کر لیا ہے۔ ملک میں ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے علاوہ صوبائی سطح پر ذیلی کمیٹیاں بھی سرکاری سرپرستی میں قائم ہیں،تاہم ان کمیٹیوں خصوصاً مرکزی کمیٹی کو سابقہ سربراہ نے بعض اوقات اپنے غلط فیصلوں اور ان سے بھی زیادہ اپنی ہٹ دھرم پالیسیوں کی بدولت متنازعہ بنادیا تھا اور ملک کے اندر تفرقہ کی بنیاد رکھ دی تھی اگرچہ ابتداء میں موصوف کے فیصلوں پر صرف خیبرپختونخوا میں اعتراضات ہوتے رہے تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے ملک کے دوسرے حصوں سے بھی سابقہ چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں پر بعض دینی حلقوں نے آوازیں اُٹھانا شروع کر دی تھیں۔ اس ضمن میں اگرچہ صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی نفاق کی صورتحال نے جنم لیا اور ضلع ہزارہ چترال کا غالب حصہ مرکزی رویت ہلال کے فیصلوں کیساتھ جانے کو ترجیح دیتا رہا جبکہ خود پشاور کے اندر بھی تقسیم کی صورتحال جنم لیتی رہی اور پشاوری بھی ہمیشہ تذبذب کا شکار ہوتے رہے کہ وہ کس کی بات مانیں کیونکہ موسم کی خرابی کی وجہ سے بعض اوقات رویت کا فیصلہ نہیں ہوسکتا تھا اور پشاور کی کمیٹی دور اُفتادہ علاقوں سے موصول ہونے والی شہادتوں پر فیصلہ کرلیتی جس کا ثبوت دوسری اور تیسری کے چاند سے مل جاتا یا پھر چودھیں کے چاند سے پوری حقیقت سامنے آجاتی مگر اس کے برعکس ایک تو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے (سابقہ) چیئرمین کا رویہ ہمیشہ ہی خیبرپختونخوا سے ملنے والی شہادتوں کیساتھ نامناسب کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا تھا اور اگر وقت پر بھی ان کا بتا دیا جاتا کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے فلاں فلاں مقام سے شہادتیں آرہی ہیں تو وہ شہادتیں خواہ سرکاری سطح پر قائم صوبائی رویت ہلال کمیٹی ہی کے توسط سے کیوں نہ پہنچائی گئی ہوں وہ ان کوتسلیم کرنے سے انکار کر کے بقول شاعر وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے، اجلاس میں چاند نظر نہ آنے کا اعلان کر کے اختتام کا اعلان کر ددیتے، حالانکہ اس کے علی الرغم ملک کے کسی دوراُفتادہ چھوٹے سے گائوں سے بھی رویت ہلال کی شہادت مل جاتی تو سابقہ چیئرمین اسے تسلیم کرتے ہوئے چاند نظر آنے کی نوید دے دیتے، ان سے بارہا یہ درخواست کی گئی کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے خصوصاً قبائلی علاقوں سے شہادتیں دیر سے ملتی ہیں اس لئے ایسی شہادتوں کا انتظار کیا جائے مگر ان کی ”میں نہ مانوں” والا رویہ ہمیشہ آڑے آجاتا اور وہ ”مستند ہے میرا فرمایا ہوا” ہی کی سوچ کے دائرے میں خود کو مقید کر کے اکثر اپنے فیصلوں پر اڑ جاتے۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ سابقہ ادوار میں تقریباً17/16برس سے وہ چیئرمین کے عہدے سے چمٹے ہوئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی ہی کو متنازعہ بنارہے تھے، ان پر ملک بھر سے تنقید ہونے کے باوجود نہ تو وہ خود اس منصب سے علیحدگی پر آمادہ تھے نہ ہی حکومت حرکت میں آرہی تھی حالانکہ اس قسم کی سرکاری کمیٹیوں کے عہدیداران کیلئے مدت تقرری تین یا زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہوتی ہے جیسا کہ گزشتہ مہینوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور کچھ ارکان کی مدت پوری ہونے کے بعد تادم تحریر کمیٹی کے نئے ارکان کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے کمیٹی غیرفعال ہوچکی ہے،جبکہ رویت ہلال کمیٹی کے ارکان تو کئی بار تبدیل کئے گئے مگر سابقہ چیئرمین اپنے عہدے سے لسوڑے کی مانند چمٹے رہے، تاہم جب سے چودھری فواد حسین کے پاس وزارت سائنس وٹیکنالوجی کا قلمدان آیا ہے انہوں نے رویت ہلال کے قضئے میں سائنسی علوم کو بھی شامل کر کے وقت سے پہلے ہی چاند نظر آنے کی تاریخوں کا اعلان کر کے معاملات کو اس طرح اُلجھا دیا تھا کہ سابقہ چیئرمین کی جانب سے ابھی اعتراضات سامنے آنے لگے تھے بہرحال اب تو اسلام آباد میں ایک آبزرویٹری کے قیام کی نوید بھی قوم کو سنادی گئی ہے جبکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے اب کی بار رمضان کے چاند کی پیش گوئی بھی کی جا چکی ہے اور متعلقہ سرکاری ادارے نے بتا دیا ہے کہ چاند13اپریل کو دیکھا جا سکے گا یعنی ممکنہ طور پر14اپریل کو یکم رمضان ہے،چونکہ نہ صرف مرکزی رویت ہلال کمیٹی بلکہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی مسجد قاسم علی خان والی کمیٹی یعنی دونوں کے اجلاس13اپریل کو ہورہے ہیں اس لئے اُمیدتو ہے کہ اب کی بار رمضان کی ایک ہی روز ابتداء ہو جائے تاہم آگے عید کا کیا ہوگا،یہ سوال اہم ہے کہ بقول شاعر
تو اسے اپنی تمنائوں کا مرکز نہ بنا
چاند ہر جائی ہے ہر گھر میں اُتر جاتا ہے

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے