p613 311

مشرقیات

مولانا رومی اپنی حکایت میں فرماتے ہیں کہ ندی کنارے ایک اونچی دیوار بنی ہوئی تھی اور اس دیوار کے اوپر ایک پیا سا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔پیاس کی شدت سے اس کی جان لبوں پر آئی ہوئی تھی ، بد اوسان دیوار پر بیٹھا پانی کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے اور پانی کے مابین دیوار کی بلندی حائل اور مانع تھی۔پیاس سے بے قرار ہو کر اور کچھ نہ کچھ سوجھا تو دیوار سے اینٹ اکھاڑکر ندی میں پھینکی۔ اینٹ کے گرنے سے جو پانی کی آواز آئی اس کی بڑی فرحت محسوس ہوئی اور ایسی سریلی لگی کہ اس پرہزار جان سے عاشق ہوگیا۔ اس نے دوسری اینٹ اُکھاڑی اورپانی میں پھینک دی۔پیاسے کو اس قدر لطف آیا کہ دیوانہ وار دیوار سے اینٹیں اکھاڑ اکھاڑ کر ندی میں پھینکنے لگا۔پانی نے زبان حال سے کہا: ارے شریف آدمی مجھے اینٹیں مارنے سے تجھے کیا نفلوں کا ثواب مل رہا ہے؟ اس فضول کی مشقت سے باز آ۔ اس میں تمہارا کیا فائدہ ہے ۔ تشنہ لب نے یوں جواب دیا: اے ندی کے شیریں اور ٹھنڈے پانی! اس میں میرے دوفائدے ہیں ۔ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ اینٹ پھینکنے کے بعد آواز آتی ہے تو اس سے میرے تن مردہ میں جان پڑجاتی ہے ، یہ معمولی آواز میرے لئے دنیا کے بہترین ساز کی آوازسے بھی دلفریب اور سُریلی ہے۔ پیاسوں کے لئے یہ آواز مثل ساز خود آواز ہے ، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس دیوار کی جتنی اینٹیں اکھاڑ کر ندی میں پھینکتا جاتا ہوں ، اسی قدر پانی سے قرب بڑھتا جارہا ہوں اور دیوار کے گرانے سے جوں جوں فاصلہ کم ہوتاجارہا ہے ،محبوب سے وصل کا لمحہ قریب آتا جارہا ہے ۔”صلائے عام ہے یاران نقطہ داں کے لئے”جب تک تیرے نفس اَمارہ کی دیوار سر اُٹھا کر کھڑی ہے ، وہ سجدہ ادا کرنے میں مانع رہے گی۔
ہمیں غنیمت واں جوانی اے پسر
سر فروداور بکن خشت ومدر
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اے عزیزم! اس جوانی کی عمر کو غنیمت سمجھ، حق تعالیٰ کے حضور میں جھک جا اور نفس امارہ کی دیوار کے ڈھیلوں اور اینٹوں کو اکھیڑ ڈال۔
حضرت شفیق بلخی سے ایک شخص نے عرض کی کہ حضرت! میں آپ کو کچھ ہدیہ کرنا چاہتا ہوں ، تاکہ آپ اس سے اپنی ضروریات خرید سکیں۔ آپ نے فرمایا: اگر تم میں پانچ عیوب نہ ہوتے تو میں آپ کا ہدیہ قبول کر لیتا۔ ایک یہ کہ ایسا کرنے سے تمہارا مال کم ہوجائے گا، دوسرا اس بات کا امکان ہے کہ چور میرے پاس سے تمہارا ہدیہ چوری کرلیں گے ،تیسرا یہ کہ ہوسکتا ہے کہ تم پشیمان ہو جائو، چوتھا اس بات کا امکان ہے کہ شاید تم مجھ میں کوئی عیب دیکھو تو کہو کہ میرا مال واپس دے دو، پانچواں یہ کہ کیا عجب ہے جب تمہاری موت آجائے اور میں بے سروسامان ہوجائوں ، لیکن میرا ایک خدا ہے جو ان تمام عیوب سے پاک ہے ، اس لئے میں اپنے رب سے مانگتا رہتا ہوں۔
(مخزن اخلاق)

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے