1 473

نااتفاقی ہماری رسوائی کا سبب

نہیں وزیراعظم صاحب! یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، نہ مغرب کا اسلاموفوبیا اور نہ ہی نبی کریمۖ کی ذات اقدس کو نشانہ بنانا۔ یہ ان کی ناسمجھی نہیں ہے اور نہ ہی اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اسلام کو بدنام کرنا اس مہم کا حصہ ہے جو تہذیبوں کے تصادم سے شروع ہوئی۔ مغرب نے ایک طویل عرصہ اسلام کیخلاف جنگ کی منصوبہ بندی کی اور نائن الیون کے تناظر میں باضابطہ یہ جنگ مسلمانوں اور اسلام پر مسلط کی گئی۔ سابق امریکی صدر رچرڈنکسن نے اپنی کتاب ”سیزدی موومنٹ” (Seize The Moment) میں ”اسلام اور مغرب کو دو متضاد اجسام قرار اور اس خطرے سے نمٹنے کیلئے مغرب کو مشورہ دیا کہ سوویت یونین سے ملکر متحدہ طور پر اس کا مقابلہ کیا جائے” یہ کتاب 80 کی دہائی میں لکھی جب افغان جہاد جاری تھا اور سوویت یونین زخم خوردہ تھا۔ بعدازاں سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد یورپی یونین کے سربراہ سے جب سوال کیا گیا کہ نیٹو کے قیام کا اب کیا جواز باقی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کمیونزم اگرچہ اب کوئی ایشو نہیں رہا لیکن مغربی دنیا اور مسلمانوں کے درمیان جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے نیٹو کے قیام کو مغرب کی ضرورت قرار دیا۔ 1994ء میں سیموئل ہٹنگٹن نے ”تہذیبوں کے درمیان تصادم” (Clash of Civilizations) نامی کتاب لکھی تو اس کے پیچھے وہ سوچ کارفرما تھی جس کا اظہار مغربی دارالحکومتوں اور اقتدار کے ایوانوں میں ہو رہا تھا۔ نائن الیون کا حادثہ کا ہوا تو امریکی صدر نے ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کے تباہ شدہ ٹاورز کے ملبے پر کھڑے ہو کر صلیبی جنگ کا نعرہ لگایا۔ یہ نعرہ بے ساختہ اور نائن الیون کے بعد مسلمانوں اور اسلام کیساتھ جو سلوک ہوا وہ متوقع اور طے شدہ تھا۔ گزشتہ بیس سالوں کی تاریخ اسلاموفوبیا سے عبارت ہے۔ اسلام اور دہشتگردی کا تعلق جوڑنے کی مذموم کوشش کی گئی اور نبی کریمۖ کی ذات اقدس کو نشانہ بنانے کی ناپاک جسارتیں کی گئیں۔ نبیۖ کے توہین آمیز خاکے بنانا اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اس سرگرمی کی سرکاری سرپرستی کرنا مغرب کا وطیرہ بن چکا ہے۔ ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے’ یہ ناسمجھی نہیں ہے۔ مسلمانان دنیا نے ”ناموس رسالت” کے تحفظ کیلئے ہمیشہ آواز اُٹھائی ہے اور توہین رسالتۖ پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے لیکن مغرب نے مسلمانوں کی دل آزاری کو کبھی اہمیت نہیں دی ہے۔ فرانسیسی صدر نے جو کہا اور کیا وہ ایک حکمران کے منصبی تقاضوں کیخلاف تھا لیکن فرانس میں اس پر کوئی ردعمل آیا اور نہ ہی مغربی دنیا کے باقی حکمرانوں نے فرانس کو اس پر متنبہ کیا۔ وہ ایسا کیونکر کرتے’ ان کی تو یہ متفقہ پالیسی ہے’ ایک کے بعد دوسرے ملک میں اسلام اور مسلمان مخالف سرگرمی دیکھنے میں آتی ہے۔ حجاب کو فرانس سمیت اکثر مغربی ممالک میں بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حجاب اس لئے برا ہے چونکہ یہ ایک مسلمان عورت کی شناخت ہے’ شناخت کا معاملہ ہو تو انہیں مساجد کے مینار بھی برے لگتے ہیں چنانچہ سوئٹزر لینڈ میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے میناروں کی تعمیر پر پابندی لگا دی گئی۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں مسلمان ممالک نے مغرب کا ساتھ دیا حالانکہ یہ ہماری جنگ نہیں تھی اس کے باوجود اسلام کا دہشتگردی سے تعلق جوڑنے کی کوشش کی گئی اور مسلمانوںکی محبوب ترین ہستی حضرت محمدۖ کے کارٹون چھاپنے کی ناپاک حرکت کی گئی۔ یہ ہمیں سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ اہل مغرب کا ہدف کیا ہے؟ مسلمان ممالک سے اس کیخلاف آواز ضرور اُٹھائی گئی مگر یہ اتنی توانا آواز نہیں ہے جس کا مغرب نوٹس لیتا۔ ترک صدر طیب اردوان نے فرانس اور فرانسیسی صدر کو جس طرح لتاڑا ویسی جرأت کسی اور مسلمان رہنما نے نہیںکی۔ وزیراعظم صاحب آپ نے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری پر پارلیمنٹ میں قرارداد لانے کا جرأت مندانہ اقدام اُٹھایا ہے لیکن آپ کی بات درست ہے کہ مسئلہ ایسے نہیںحل ہوگا۔ مغرب کو اسلام اور نبیۖ مخالف اقدامات سے روکنے کیلئے تمام مسلمان ممالک کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ مسلمان ملک باہمی اتحاد کا مظاہرہ کریں تو ان پریشانیوں اور تکالیف سے بھی بچ سکتے ہیں جو مسلمان ملک کی حیثیت سے انہیں اُٹھانا پڑتی ہیں اس میں کیا شک ہے کہ عیسائی مغرب ہو’ کمیونسٹ روس ہو یا ہندو انڈیا وہ ہمیں ایک ملک کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ڈیل کرتے ہیں۔ اس متعصب سوچ سے بچنے کی ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے مسلمان ممالک کا اتحاد جو یورپی یونین کی طرح انہیں معاشی وسیاسی فائدہ دینے کا سبب بن سکے۔ او آئی سی کا پلیٹ فارم ہمارے لئے غنیمت ہے لیکن اس کمزور اتحاد سے آگے بڑھ کر ایک مضبوط معاشی وسیاسی اتحاد قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب ہماری منفعت اور نقصان ایک ہے تو ہم ایک کیوں نہیں ہیں۔ جب ہم ایک ہوں گے تو مغرب کے کسی ملک کی جرأت نہیں ہوگی کہ وہ ہمارے جذبات سے کھیل سکے۔ مغرب 57مسلمان ممالک کی ناراضگی مول لینے کا متحمل کبھی نہ ہوتا اگر ہم اتحاد کے مضبوط رشتے میںجڑے ہوئے ہوتے’ ہماری نااتفاقی نے ہمیں دنیا میں رسوا کر رکھا ہے۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش