zakaullah khan

آبی مسائل

یہ ہماری کس قدر کوتاہ نظری ہے کہ ضلعی سطح سے لے کر ملکی سطح تک کے ترقیاتی منصوبوں کی سیاسی مخالفت، قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے میں علاقائی تعصب اور عوامی مفاد کے معاملات میں صرف الزام تراشی سے کام لیتے ہیں۔ اس بد اطواری کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
اب گذشتہ ماہ جب خریف کی فصل کے لئے پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے ممکنہ حل کی بجائے پنجاب اور سندھ کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے لگی۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ دونوں صوبے پانی کے تنازعہ پہ الجھ پڑے ہوں بلکہ برسوں سے یہ جھگڑا مول لیا ہوا ہے۔ سال1991 میں پانی کی تقسیم کے معاہدہ سے یہی امید پڑی کہ صوبوں کے درمیان پانی کے مسلہ کا حل نکل آئے گا مگر ایسا ہو نہ سکا۔ اب اس تقسیم کے ثالث انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) پہ دباؤ ڈالا گیا کہ سندھ میں روئی کی فصل کے لئے منگلا سے پانی کا فوری اخراج کیا جائے اور پانی کم کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ اس معاہدہ کے مبہم الفا ظ سے ہر صوبہ نے مختلف معنی اخذ کیے۔ معاہدہ یہ اخذ کرتا ہے کہ انڈس بیسن سسٹم میں117 ملین ایکڑ فیٹ پانی دستیاب ہوگا جو صوبوں کو اس کے تاریخی استعمال کی بنیاد پہ تقسیم کیا جائے گا۔ دراصل پانی کی یہ مقدار کبھی دستیاب ہی نہیں رہی ۔ اس لئے ارسا گذشتہ تیس سال سے پانی کی قلت تقسیم کر رہی ہے۔ سندھ کا مطالبہ ہے کہ اسے معاہدہ کے فرض شدہ مقدار کی بنیاد پہ پانی دیا جائے۔ نتیجہ کے طور پر صوبے ایک دوسرے پہ پانی کی چوری کا الزام لگاتے چلے آرہے ہیں ۔ یہ مسلہ صرف صوبوں تک محدود نہیں بلکہ برصغیر کی تقسیم کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان غیر طے شدہ مسائل میں اہم ترین نہری پانی کا مسلہ تھا۔ پانی کے اس مسلہ پر دونوں مُلک برسرپیکار رہے مگر کوئی حتمی معاہدہ طے نہ پا سکا۔ بالآخر تیرہ برس بعد کراچی میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستانی صدر ایوب نے معروف سندھ طاس معاہدہ پر دستخط کیے۔ جس کے تحت تین مشرقی دریا (راوی، ستلج، بیاض) ہندوستان کے حصے میں آئے جبکہ جہلم،چناب اور سندھ کے دریا پاکستان کو ملے۔مغربی دریاؤں کے بارے یہ طے ہوا کہ پاکستان ان کے پانی کو کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے تصرف میں لا سکتا ہے اور بھارت پانی کے قدرتی بہاؤ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا۔ تاہم جس بھارتی علاقہ میں یہ دریا بہتے ہیں وہاں آبپاشی اور پن بجلی کے لئے پانی استعمال کر سکتے ہیںلیکن شرط یہ ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کو بند تعمیر نہیں کر سکتا۔ معاہدہ کے مطابق پاکستان پر یہ بندش عائد ہوئی کہ وہ مشرقی دریا ؤں کے بہاؤ کو اس وقت تک نہیں چھیڑ سکتا جب تک پانی مکمل طور پر پاکستانی حدود میں داخل نہ ہو جائے۔ معاہدہ کے طے شدہ مجوزہ منصوبوں کو واپڈا نے دس سال کی عبوری مدت میں مکمل کیا۔ دریا جہلم پر منگلا ڈیم اور دریا سندھ پر تربیلا ڈیم بنائے گئے۔اس کے علاوہ چشمہ جہلم لنک نہر، تونسہ پنجند لنک نہر، رسول قادر آباد لنک نہر، بلوکی سلیمانکی لنک نہر اور سدھنائی میلسی لنک نہر کے منصوبے شامل تھے۔
اس معاہدہ کے پابند ہوتے ہوئے بھی جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں وولر بیراج اور بگلیار ڈیم جیسے منصوبے مکمل کیے تو دریا جہلم اور چناب میں پانی کی کمی نے دونوں مُلکوں کے درمیان شدید تنازعہ کی صورت اختیار کر لی۔ سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی اور پانی کے غیر قانونی استعمال پر ہمارے ہاں خاصا احتجاج ہوا۔ اس مسلہ کو تکنیکی اعتبار سے حل کرنے کی بجائے سیاسی رنگ دیا گیا اور پھر اس حوالہ سے طرفین میں ایسی تلخی پیدا ہوئی جو ابھی تک پائی جاتی ہے۔ مشرقی دریاؤں سے سیراب کیے جانے والے علاقوں کو اب مغربی دریاؤں سے موثر نہری نظام کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔ جس سے دریاؤں کا فطری بہاؤ تبدیل ہونے لگا ہے۔ پانی کی اس تبدیلی سے زمین کا ایکو سسٹم جب متاثر ہوتا ہے تو وہاں زرعی پیداوار بھی کم ہو جاتی ہے۔ علاقائی ایکولو جیکل نظام کو استوار رکھنے کے لئے اس مسلہ کو تکنیکی اور سائنسی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سالانہ ١٠٤ ملین ایکڑ فیٹ پانی زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے آبپاشی کے نظام کو بہتر بنا لیں اور واٹر مینجمنٹ کے جدید طریقوں کو بروئے کار لائیں تو ہم صرف ٦٠ ملین ایکڑ فیٹ پانی سے اپنی زرعی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔یوں ہم پانی کے ضیاع کو بچا سکتے ہیں۔ پانی کے ذخائر کو آلودگی سے بچانا اور چوری روکنے کے اقدامات لازمی ہیں۔ پانی ہماری زرعی معیشت کا واحد وسیلہ ہے۔ اس کے لئے جہاں فرسودہ نظام کو درست کرنا ضروری ہے وہاں صرف پروفیشنل انجینئرزکو با اختیار کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ