3 421

بجٹ ہنگام میں انتخابی اصلاحات ترمیمی ایکٹ

وفاقی بجٹ پیش کیے جانے سے محض ایک روز قبل تحریک انصاف نے نہایت مہارت سے قومی اسمبملی سے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم منظور کرتے ہوئے اسے سینیٹ سے منظوری کے لیے بھجوا دیا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے قانون سازی کیلئے اپوزیشن تعاون کیلئے تیار نہیں ہے۔ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے متعدد بار اپوزیشن کو مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے انتخابی اصلاحات لانے کی کوشش کی مگر اس کے باوجود اپوزیشن تعاون کیلئے تیار نہ ہوئی۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ حکومت اپنی مرضی کی اصلاحات لانا چاہتی ہے اور یہ کام چور دروازے سے کرنا چاہتی ہے۔یہ صورتحال بہت دلچسپ ہے کہ حکومت و اپوزیشن دونوں شفاف انتخابات کیلئے انتخابی اصلاحات لانا چاہتی ہیں مگر یہ معاملہ باہمی اتفاق رائے اور ایوان میں بحث مباحثے کے ذریعے حل کرنے کی بجائے شاٹ کٹ راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت نے اپنے تئیں انتخابی اصلاحات کا ترمیمی بل منظور کرنے میں بڑا کارنامہ انجام دیا ہے اور اس کے دفاع میں اس کا مؤقف ہے کہ اس ترمیم سے شفاف انتخابات ممکن ہونے کے ساتھ ساتھ اوور سیز پاکستانیوں کو بھی ووٹ کاحق مل سکے گا۔ حکومت کے اس مؤقف پر بادی النظر میں اس خیال کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کر حکمران جماعت اپنے ووٹ بینک میں اضافہ چاہتی ہے۔وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے اس کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ”اوورسیزپاکستانیوں نے پہلے 11ماہ میں 45سو ارب پاکستان بھیجا ہے،اوورسیز کے حوالے سے اپوزیشن کا عمل غیر مناسب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ کے وزراء نے اپنے ادوار میں اقامے لے کے رکھے تھے انہیں اووسیز پاکستانیوں پر اعتراض سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔” ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کر ان کی ہمدردیاں سمیٹی جائیں جسے آئندہ انتخابات میں کیش کرایا جا سکے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ جیسے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی سب سے زیادہ فکر انہی کو ہے حالانکہ یہ معاملہ اس سے پہلے بھی ایوان میں زیر بحث آ چکا ہے اور تقریباً سبھی جماعتوں کا اس پر اتفاق رائے بھی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہئے لیکن جلد بازی میں قدم اٹھانے کی بجائے آئینی راستہ اخیتار کرنا چاہئے۔
حکومت کی طرف سے عجلت میں اٹھایا گیا انتخابی ترمیمی اقدام اگر ایوان بالا سے بھی منظور ہوجاتا ہے تو قانونی ماہرین کی نظر میں اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے انتخابی ترمیمی قوانین کو پہلے ہی غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وزارت پارلیمانی امور سے خط کے ذریعے رابطہ کیا اور حکومت کو الیکشن ترمیمی بل پر اعتراضات تحریری طور پر بتا دیئے ہیں۔سیکرٹری الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی سے منظور کردہ الیکشن ایکٹ کی کئی شقوں کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ آبادی کی بجائے ووٹرز پر حلقہ بندیوں کی تجویز آئین سے متصادم ہے، سینیٹ الیکشن کی سیکرٹ کی بجائے اوپن ووٹنگ آئین اور سپریم کورٹ کی رائے کے خلاف ہے۔قومی اسمبلی سے بل منظور کیے جانے سے قبل الیکشن کمیشن نے باضابطہ طور پر قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا لیکن کمیٹی نے جلد بازی دکھاتے ہوئے بل کلیئر کر دیا اور کمیشن کے تحفظات پر بحث ہی نہیں کی گئی۔ اس صورتحال میں نہ صرف الیکشن کمیشن کے تحفظات کو نظرانداز کیا گیا بلکہ اپوزیشن کو بھی ناراض کر دیا گیا۔ اس سارے قضیے میں حکومت غلطی کرنے جا رہی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے کردار میں تبدیلی کو آئینی ترمیم کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے، نہ کہ سادہ قانون سازی کے ذریعے۔ اور آئینی ترمیم کیلئے دو تہائی کی اکثریت ضروری ہے جو اپوزیشن جماعتوں کے تعاون و حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔ اس پس منظر کے بعد یہ سمجھنا نہایت آسان ہوجاتا ہے کہ بجٹ سیشن میں ہنگامہ کیوں برپا کیا گیا اور اس کے پس پردہ کیا مقاصد تھے۔ انتخابی اصلاحات سے مفرہے اور نہ ہی انکار کی گنجائش ہے مگر عجلت بازی، ایوان میں بحث اور اپوزیشن جماعتوں کے اتفاق کے بغیر ترمیمی ایکٹ مفید ثابت نہ ہو سکے گا، اگر حکومت انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے مخلص ہے اور انتخابی اصلاحات کے ضمن میں الیکٹرانک ووٹنگ کا طریقہ کار لاگو کرانا چاہتی ہے تو درست کام کیلئے بھی چور دروازے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ آئین میں انتخابات کو شفاف بنانے اور ضرورت پڑنے پر انتخانی اصلاحات کا مکمل طریقہ کار موجود ہے۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے