1 560

پائیدار کاروبار

اقوام عالم کی جانب سے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) معاہدے پر دستخط کئے ہوئے لگ بھگ 6سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے، جبکہ کلائمنٹ چینج کے پیرس میںہونے والے معاہدے کو 5سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، دنیا کی بڑی کارپوریشنوں نے یہ یقین دہانی کرائی کہا کہ وہ اپنے کاروبار کو استحکام دینے کے لئے درست سمت کا تعین کریں گے،آئندہ نسلوں کی بقا کے لئے کرہ ارض کی حفاظت بنیادی عنصر ہے،کاروباری اداروں کو اپنے کام کرنے کے انداز کا جائزہ لینا، اسے تبدیل کرنا ہوگا اور حکومتوں کو ان ناگزیر چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا، پائیدار ترقی کے حوالے سے 2021 کی فنانسنگ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیاہے کہ موجودہ کاروباری ماڈل استحکام کے لحاظ سے ہماری عالمی ضروریات کو حاصل کرنے کے لئے اتنی تیزی سے تبدیل نہیں ہورہا ہے جس سے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کئے جا سکیں،نجی شعبے میں تبدیلی کے وعدے اور حقیقت کے مابین اس عدم اطمینان کو زیادہ تر لوگوں نے قبول نہیں کیا، مختلف سرویز نتائج بتاتے ہیں کہ20فیصد سے بھی کم عالمی رائے عامہ موجودہ کاروباری نظام کو درست جبکہ 56فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اس موجودہ شکل میں سرمایہ دارانہ نظام زیادہ نقصان کا باعث بن رہا ہے، ہم یہاں سے کہاں جائیں؟ سب سے پہلے ہمیں گیم کے قواعد کو تبدیل کرنا ہو گا، سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد یہ تسلیم کرتی ہے کہ موجودہ ماحول میں معاشرے کو ملنے والے فوائدمخصوص نہیں ہیں ‘تاہم کاروبار میں اضافے کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام میں ماحولیاتی، سماجی اور گورننس کے معیار کو بہتر بنانے کی سرمایہ کاری کیلئے وقت درکار ہے ،حکومتیں پالیسیاں اور قواعد و ضوابط کو اپ ڈیٹ کرکے اس سرمایہ داری کھیل کے قواعد کو تبدیل کرسکتی ہیں،اس تناظر میں حکومتیں کاربن کی قیمتوں کا تعین اور اس حوالے سے کراس بارڈ ٹیکس کو مربوط کرسکتی ہیں،عوامی معاہدوں کو پذیرائی بخشتے وقت حکومتیں ایسی کمپنیوں کی حمایت کر سکتی ہیں جو اقلیتوں کو ضم کر کے صنفی توازن پیدا کرتی ہیں، حکومتوں کو صنعتکاروں پر یہ بھی باور کرنا ہو گا کہ ان کی مصنوعات کے ماحول پر پڑنے والے اثرات کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے ‘دوسرا نجی شعبے کی تبدیلی کے لئے شفافیت کو ہر صورت مقدم رکھنا ہو گا،مناسب اور منصفانہ ماحول کے بغیرکمپنیوں کو پائیدار ترقی پر پڑنے والے اثرات کے لئے جوابدہ نہیں ٹھہرایا جاسکتا،اس طرح سے سرمایہ کاروں کو ان کی پائیدار ترقی کی پالیسیوں کے مطابق اثاثے مختص کرنے میں مدد ملے گی،کارپوریٹ ڈویلپمنٹ اسکیل میں اضافے کے حوالے سے مختلف رپورٹس عموما درست موازنہ نہیں کرتیں،کیونکہ کمپنیاں مختلف طریقہ کار کے تحت رپورٹ مرتب کرتی ہیں اور منفی امور کو ظاہر نہیں کیا جاتا، مارکیٹ ریگولیٹرز استحکام کی نشاندہی کیلئے مناسب فریم ورک کو مستحکم کرکے شفافیت کو بہتر بناسکتے ہیں،حکومتوں کو کمپنیوں کو اس بات پر بھی قائل کرنا ہو گا کہ وہ پا ئیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے اقدامات کو ظاہر کریں ،ہمیں پائیدار سرمایہ کاری کی مصنوعات کی ساکھ کو بہتر بنانا ہو گا، گرین بانڈز اور ای ایس جی فنڈز کے عروج نے پائیدار سرمایہ کاری کے عوامل کو رفتار بخشی ہے،گرین بانڈ کا لیبل اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ایک مخصوص سرگرمی کی مالی اعانت فائدہ مند ہوتی ہے ، لیکن کمپنی کی حکمت عملی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا،لہٰذا اس بات کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ گرین بانڈ جاری کرنے والی فرموں کی کاربن اخراج کی شدت میں کمی آئے گی ،ہمیں ای ایس جی فنڈز( معاشی، سماجی اور گورننس) کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے ، عالمی سرمایہ کاروں کی پائیدار ترقی کے حصول کیلئے کی گئی سرمایہ کاری کی مشترکہ تشریح مارکیٹ کے لئے ایک موثر بنیاد ثابت ہوسکتی ہے۔
پائیدار ترقی کے مشترکہ بیانیہ کے لئے متعدد مرتبہ متبادل کوششیں کی گئیں، پائیدار ترقی کے استحکام کے پیش نظر ریگولیٹرز کو مارکیٹ کی موثر بنیاد کیلئے مشاورت کی مشترکہ کوششوں کو استحکام دینا چاہیے،کوویڈ 19نے حکومتوں اور کمپنیوں کے مابین شراکت کی اہمیت کو تقویت بخشی ہے، انھیں اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تبدیلی کی جستجو جاری رکھنی ہو گی ،مذکورہ بالا اقدامات کی بدولت حکومتوں اور نجی شعبے کے لئے مل کر ایک نیا کاروباری ڈیزائن تشکیل دے سکتے ہیں’ جو کرہ ارض اور اس پر بسنے والے انسانوں ،دونوں کے لئے موزوں ہو،ایک بہتر دنیا بنانے کی خاطر نجی مالیاتی سیکٹرکے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کاروبار میں اس طرح کے چیلنجز سے عہدہ برآء ہونے کیلئے ضروری تبدیلیوں کی حمایت کریں اور اس میں تیزی لائیں۔
( بشکریہ ‘ دی نیوز۔ترجمہ:واجد اقبال)

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے