2 544

بات وہ ہے جو ترے دل میں جگہ پاتی ہے

اس جدید دور میں بھی ہماری دو رشتہ دار خواتین قدیم دور میں سانس لے رہی ہیں ‘ یعنی ان کی مبلغ علمیت پرانے زمانے میں کہیں بھٹک رہی ہے خصوصاً ہندسوں کے معاملے میں ان کی باتیں سنیں تو حیرت ہوتی ہے گویا بقول شاعر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ ”ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے؟” یہ مصرع ہم نے تفنن طبع کے طور پر لکھا ہے ‘ آپ اسے کوئی اور معنی نہ پہنائیں ہماری وہ دو انتہائی قریبی عزیز خواتین کی جو ماشاء اللہ دادیاں اور نانیاں بھی بن چکی ہیں ‘ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی گنتی کی صلاحیت”بیس” سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے ‘ گویا وہ جو پرانے زمانے میں لوگ گنتی کے لئے بیس کے ہندسے کو بنیادی اکائی سمجھ کر مال کی خرید وفروخت کوڑیوں کے حساب سے کرتے تھے یعنی ایک کوڑی بیس کے ہندسے پر مشتمل تھی تو لین دین کرتے وقت ایک کوڑی ‘ دو کوڑی وغیرہ کے حوالے سے دس بیس پچاس یا جتنی بھی قیمت بنتی ‘ اتنی کوڑی کہہ کر فیصلہ کیا جاتا کچھ ایسا ہی معاملہ ہماری کزن خواتین کے ساتھ بھی ہے ‘ ان کو اگر کسی چیز کی قیمت سو ‘ ہزار وغیرہ میں بتا دی جائے یعنی فرض کریں کہ ایک چیز کی قیمت پانچ سو چالیس بتا دی جائے تو فوراً کہیں گی ‘ یہ کتنے بیس بن جاتے ہیں؟ یعنی ان کی سوئی قدیم دور کی”کوڑیوں” میں اٹک چکی ہے گویا آپ کچھ بھی کہیں کوئی بھی تاویل لائیں ان کی”سمجھدانی” اسے اپنے ہی نظریئے کے تحت قبول کرتی ہے ‘ یعنی بقول مصحفی
لاکھ ہم شعر کہیں ‘ لاکھ عبارت لکھیں
بات وہ ہے جو ترے دل میں جگہ پاتی ہے ۔ آپ نے اکثر بعض مقابلہ ہائے مضمون نویسی کے اشتہار پڑھے ہوں گے جن میں یہ پابندی ہوتی ہے کہ مضمون کم از کم اتنے الفاظ پر مشتمل ہو ‘ یقین جانیں ایسے اشتہار پڑھ کر ہماری ساری حساب دانی دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور ہمیں سمجھ میں نہیں آیا کہ جو لوگ ان مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں وہ مقررہ الفاظ کو کیسے گن لیتے ہیں؟ یا پھر اگر بار بار گن کرمقررہ تعداد کی شرط کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے خیالات کیامنشتر نہیں ہوجاتے؟ اور اگر ایسا ہو جائے تو وہ خیالات کو دوبارہ مجتمع کرکے تسلسل کو کیونکر قائم اور برقرار رکھ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ساتھ تو یہ مسئلہ رہتا ہے کہ لکھتے لکھتے اگر کسی اہم ‘ ضروری اور ناگزیر کام کے لئے دوچار منٹ کے لئے قلم روک دیں تو پھر ہمارے تمام خیالات منتشر ہوجاتے ہیں اور لاکھ کوشش کے ہم بات کو اسی تسلسل کے ساتھ رواں دواں رکھنے میں بمشکل ہی کامیاب ہوپاتے ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ رہوار قلم کسی اور سمت گامزن ہو کر کالم کو تبدیل کر دیتا ہے یعنی جس موضوع کو لیکر کالم کی ابتدائی کی جاتی ہے وہ کہیں راستے کی دھول میں گم ہوجاتا ہے اور کالم مکمل ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہم تو موضوع کو درمیان ہی میں چھوڑ آئے ہیں خیر بات ہو رہی تھی گنتی کے الفاظ کی جن کی پابندی کرنا ضروری ٹھہر گیا ہے ‘ ایسا ایک بالکل ہی الٹ تجربہ چند برس پہلے بھی ایک بار ہوچکا تھا ‘ اور جب پچھلی بار ادارتی صفحے کی ہیئت تبدیل کی گئی تھی تو تب یہ ہدایات جاری ہوئی تھیں کہ اب کالم مختصر کرکے لکھنا ہے ‘ تب ہمارے لئے بہت مشکل یہ آن پڑی تھی کہ صرف ہم نہیں ہمارے کئی ساتھی کالم نگاروں کو جو قدرے طویل کالم لکھنے کے عادی تھے ‘ اچانک قلم کو بریک لگانے میں بعض اوقات دشواری پیش آتی تھی ‘ تاہم اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پہلے مولانا محمد علی جوہر کا ذکر ضروری ہے جواپنے دو اخبارات یعنی کامریڈ(انگریزی) اور ہمدرد(اردو) میں مضامین کے علاوہ دونوں اخبارات کے اداریئے بھی تحریر کرتے تھے اور ان کی تمام تحریریں بشمول اداریوں کے خاصے طویل ہوتے تھے ‘ اوپر سے ان کی تحریر کی چاشنی اور بلند پایہ انشاء پردازی ‘ بڑی خاصے کی چیز تھی ایک بار ان سے کسی نے کہا مولانا آپ مختصر نہیں لکھ سکتے؟انہوں نے جواب دیا ‘ دراصل میں طویل تحریر اس لئے لکھتا ہوں کہ
میرے پاس مختصر لکھنے کے لئے وقت نہیں ہے’ مولانا کی بات بالکل درست ہے کیونکہ طویل مضمون وغیرہ لکھنا توآسان ہے اور یوں اپنے مافی الضمیر کا اظہار آسان ہو جاتا ہے جبکہ مختصر لکھنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ مختصر لکھنا اور اس میں کام کی بات کہہ دینا”کسب کمال” کے زمرے میں آتی ہے یعنی کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی ‘ اسی طرح ایک تو اختصار نویسی اگر جان جوکھوں کا کام ہے تو بچوں کے لئے ادب تخلیق کرنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ‘ کیونکہ بچوں کے لئے ادب تخلیق کرنا دراصل ان کی ذہنی سطح پر اترتا ہے جو انتہائی مشکل امر ہے اس بات کو والدین بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ انہی کے انداز میں ‘ توتلی زبان میں گفتگو کرکے ان کو سمجھاتے ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے نابغہ ادیبوں اور شاعروں نے بچوں کے لئے ادب تخلیق کرنے کی ”ہمت” نہیں کی ‘ جبکہ گنتی کے چند ایک ہی ایسے اہل قلم گزرے ہیں جن کی تخلیقات آج بھی ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں ‘ اس سلسلے میں انگریزی کی نظم Humty Dumpty عالمگیر شہرت کی حامل ہے جبکہ ہمارے ہاں مولانا اسماعیل میرٹھی کی مشہور زمانہ نظم”رب کا شکر ادا کر بھائی’ جس نے ہماری گائے بنائی” اور صوفی تبسم کی ٹوٹ بٹوٹ اور دیگر نظمیں بھی مقبول عام ہیں ‘ بہرحال ہم چند سال پہلے کی ہدایات کا تذکرہ کر رہے تھے جب ہمیں مختصر کالم لکھنے کا کہا گیا تھا اور ہم اکثر مشکل کا شکار ہو جایا کرتے تھے کہ لکھتے لکھتے مقررہ ”مقدار ‘ تعداد ‘ وزن” جوبھی آپ سمجھ لیں تک پہنچ کر بہ امر مجبوری کالم کو سمیٹنا پڑتا تو ہمیں احساس ہوتا کہ جس موضوع کو لیکر ہم چلے تھے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ابھی مزید لکھا جائے مگر کالم کے لئے مختصر جگہ اس سے زیادہ لکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی اگرچہ ہماری کیفیت کچھ یوں ہوتی تھی کہ ”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں” مگر بقول مولانا محمد علی جوہر طویل نگاری ہی اس کا واحد حل تھا ‘ بہرحال اب جبکہ ہم نے پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے کچھ طویل لکھنا ہے تو اب امید ہے ہماری مشکل بھی دور ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش