پیپلز پارٹی کا ماضی دیکھنا چاہئے

فی الوقت تو صورت حال یہ ہے کہ جو حکومت سے لڑنے کے لئے نکلے تھے اب آپس میں دست و گریباں ہیں۔ نون لیگ کے بعض رہنما اور سوشل میڈیا مجاہدین ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ پیپلز پارٹی کی ریاست سے ڈیل ہو چکی ہے ۔ بلاول کا دورہ سرائیکی وسیب اس ڈیل کا حصہ ہے ۔ خواجہ آصف تو یہاں تک کہتے ہیں ہماری قیادت کو پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنے سے قبل اس کا ماضی دیکھنا چاہئے تھا۔ سچ یہی ہے کہ بالکل دیکھنا چاہئے تھا پچھلی ساڑے تین دہائیوں کی سیاست میں نون لیگ نے بازار میں دستیاب ہر گالی پیپلز پارٹی کو دی ایک مرحلہ پر میاں نواز شریف نے یہ بھی کہا تھا”میرا تو خون کھولتا ہے بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کا نام سن کر میرے اختیار میں ہو تو انہیں سمندر میں پھینک دوں”۔ کبھی بے نظیر بھٹو سیکورٹی رسک قرار پائیں ۔ ایک بار راجیو گاندھی پاکستان آئے لیگی قیادت کہتی تھی بھائی بہن کو ملنے کے لئے آیا ہے نیلے آسمان کے نیچے وقت بدلا جنرل پرویز مشرف نے لیگی اقتدار کا تختہ الٹا نون لگ اے آر ڈی نامی اتحاد میں یہود ہنود کی ایجنٹ پیپلز پارٹی اور سیکورٹی رسک بے نظیر بھٹو کے ساتھ اس اتحاد میں شامل ہو گئی۔ سال دوہزار کے آغاز سے دسمبر دوہزار تک جب شریف فیملی دس سالہ معاہدہ جلا وطنی کرکے ملک چھوڑ گئی تھی کی سیاست کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے۔ کچھ آگے بڑھتے ہیں۔پھرباضابطہ طور پر دونوں خاندانوں بھٹو اور شریفین کے درمیان رابطے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو جدہ کے سرور محل میں نواز شریف اور ان کے خاندان سے ملاقات کے لئے گئیں۔ماضی کے دشمن بہن بھائی بن گئے اگلے مرحلوں میں میثاق جمہوریت ہوا۔ میثاق جمہوریت میں لکھا تھا کہ جمہوریت کی بحالی کے بعد پی سی او ججز کی بحالی کے لئے تحریک کے ایک مرحلہ پراعتراز احسن نے قیادت کی۔پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں اس وقت میثاق جمہوریت نہیں ہوا تھا۔ دوسرے مرحلے پر قیادت میاں نواز شریف نے خود کی ایک عظیم الشان جلوس گوجرانوالہ سے واپس لاہور چلا گیا ۔ کیوں؟۔ ہیلری کلنٹن نے اس وقت کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی سے بات کی کیانی نے صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے رابطہ کیا پھر رات گئے پی سی او ججز کا وہ گروپ بحال ہو گیا جو نون لیگ کا حامی سمجھا جاتا ہے ۔ دوسرا گروپ جسے پیپلزپارٹی کا حامی کہا جاتا تھا اس کی خوب خاطر مدارت ہوئی ایسی کہ ایک جج کی بیٹی کی منگنی ٹوٹ گئی اور والدین کو صاحبزادی کا نفسیاتی علاج کروانا پڑا۔
خواجہ آصف درست کہتے ہیں ہمیں پیپلز پارٹی کا ماضی دیکھنا چاہئے تھا۔ 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے درجنوں کارکنوں کے ہمراہ لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر مار دی گئیں۔ انتخابات ہوئے پیپلزپارٹی سنگل لارجسٹ پارٹی کے طورپر ابھری کے پی کے میں اس نے اے این پی سے مل کر حکومت بنائی بلوچستان میں بھی مخلوط حکومت تھی۔ سندھ میں ایم کیو ایم سے پنجاب میں نون لیگ سے حکومت سازی کے لئے پیپلز پارٹی ۔ بیورو کریسی اور ایک بڑے محکمے نے بھر پور تعاون کیا۔ آزاد امیدوار نون لیگ کے جھولی میں بیورو کریسی نے ڈالے ۔ ق لیگ کا فاروڈ بلاک ایک بڑے محکمے نے تحفہ میں دیا پی پی پی بھی ساتھ کھڑی تھی پہلے دوست محمد کھوسہ وزیر اعلیٰ بنے پھر معاملات کلیئر ہونے پر شہباز شریف ‘ پنجاب میں گورنر راج کیوں لگا کاش کسی دن ہمارے مرد مجاہد کامریڈ میاں نواز شریف ‘ مقدمات والے معاملے کے اعتراف کی طرح قوم کو یہ بھی بتا دیں کہ گورنر راج کے لئے کس کے کہنے پر بھائیوں کی جوڑی نے صدر زرداری سے درخواست کی تھی۔ وفاق میں پیپلز پارٹی نے نون لیگ اور دیگر اتحادیوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنائی یہ وہی مشہور زمانہ مخلوط حکومت ہے جس سے اس وقت کے صدر مملکت جنرل(ر) پرویز مشرف نے حلف لیا۔ اس حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار تھے ۔ ڈرار نے اولین پریس کانفرنس میں دعویٰ کر دیا کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ۔ اس دعویٰ کا نتیجہ کیا
نکلا؟ معاشی ماہرین سے پوچھ لیجئے ۔ اس دور میں اتحادی وزراء اور مقدمات لے کر سپریم کورٹ پہنچے ۔ حاجیوں اورتوانائی والے ۔ 18ویں ترمیم کی منظوری میں نون لیگ نے پی پی پی کا ساتھ دیا یہ ضروری اس لیے تھا کہ ساتھ دینے کی صورت میں ہی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا منصب تیسری بار مل سکتا تھا چوہدری نثار علی خان کی دھواں دھار تقاریر نکلوا کر پڑھ لیجئے ۔ ویسے نون لیگ کی پارلیمانی کمیٹی مخدوم جاوید ہاشمی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی منظوری دے چکی تھی اجلاس کے دوران ہی ا یک فون سننے کے لئے میاں نواز شریف اٹھ کر با ہر گئے واپس آئے تو انہوں نے اعلان کیا اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان ہوں گے ۔ میو گیٹ کیس میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میاں نواز شریف ہی گئے تھے ۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف کی کہانی سے راتوں کو بھی ملاقاتوں کے قصے ان دنوں زبان زد عام تھے ۔ یہ حقیقت ہے کہ خود نواز شریف چوہدری نثار علی خان اور اپنے بھائی کے سامنے کھڑے رہے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرنے نہ دیا وجہ یہی تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ ا س کی اجازت دیتے ہیں تو مستقبل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پیپلز پارٹی نے ان کے اس کار خیر کا بدلہ 2014ء میں چکایا جب جناب عمران خان اور طاہر القادری اور جناب راحیل شریف ایک پیج پر تھے سرکاری و غیر سرکاری رابطہ کاروں نے پی پی پی اور اے این پی کے ترلے کئے میٹنگ کیں ہر طرح سے دبائو ڈالا کہ دھرنے والوں کی حمایت کی جائے دونوں جماعتوں نے منہ توڑ جواب دیا اور پارلیمان کے ساتھ کھڑی رہیں۔ اس کے بعد کیا ہوا ۔ ایک تعزیتی ملاقات کا شیڈول طے کرکے ماسکو کے دورہ پر موجود راحیل شریف کو فون کرکے بتایا گیا کہ ملاقات منسوخ کردی ہے ۔ قصے اور بہت ہیں تلخ و شیریں پی ڈی ایم کے معرض وجود میں آنے کے بعد کون کون کس سے ملا اور کیا چاہا؟ سب ریکارڈ پر ہے ۔ خواجہ آصف درست کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا ماضی دیکھنا چاہئے تھا ۔ وہ پاکئی داماں ۔ دامن اور گریباں والا شعر یاد آرہا ہے لیکن چھوڑیں یہاں کس کا ماضی کیا ہے ۔ خود آج کل خواجہ صاحب پارٹی کے دوستوں سے کیا کہتے پھر رہے ہیں یہ بھی عرض کیا جا سکتا ہے لیکن فائدہ حرف آخر یہی ہے کہ پی ڈی ایم سیاسی اتحاد تھا اتحاد بنتے ٹوٹتے ہیں ویسے پیپلز پارٹی کو دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر سیاسی اتحاد نہیں بنانا چاہئے تھا۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''