چیف الیکشن کمشنر اور حکومت کے درمیان بجائے اس کے کہ اختلافات کا خاتمہ اور تعلقات معمول پر آتے افسوسناک حد تک جھگڑے کو بڑھا لیا گیا ہے کسی آئینی ادارے کے سربراہ کو متنازعہ بنانا پورے ادارے کے وقار کو دائو پرلگانے کے مترادف ہے اور اگر یہ عمل حکومت کی طرف سے ہو تو یہ نہایت سنگین امر ہے دو وفاقی وزراء نے ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے ایک آئینی ادارے کے حوالے سے اس قدر انتہا پسندی روا نہیں یہ صرف حکومت اور آئینی ادارے کے سربراہ کا ہی معاملہ نہیں بلکہ ملکی سیاست بھی اس میں پوری طرح ملوث ہے اور انتخابی عمل کاسارا قضیہ شکوک و شبہات کی زد میں ہے مستزاد یہ مسئلہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سنگین تنازعہ اور خلیج کے وسیع ہونے کا بڑا سبب بن گیا ہے ۔الیکٹرانک ووٹنگ کے عمل اور اس پر اعتراضات کو اگر ماہرین کی ٹیم کے سامنے رکھ کران کی رائے عوام کے سامنے رکھا جاتا تو کم از کم یہ معلوم ہو سکتا تھا کہ تکنیکی طور پر اس کے کیا فوائد ونقصانات ہیں اور یہ کس حد تک قابل اعتماد نظام ہے اس میں وہ خامیاں جس کا تذکرہ ہو رہا ہے قابل اصلاح ہیں اعتراضات درست ہیں یاغلط مشکل امریہ ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے جس میں اس امر کا تعین مشکل ہے کہ کس کا موقف کس حد تک درست ہے اور کتنا غلط جہاں تک حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان اس حوالے سے عدم اتفا ق کا معاملہ ہے ہمارے ہاں کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اتفاق رائے سے کوئی معاملہ طے ہوسوائے ان معاملات کے جہاں قومی ادارے اس کی کوشش نہ کریں الیکٹرانک ووٹنگ کو اگر سیاسی مسئلہ بنانے کی بجائے تکنیکی طور پر اس کے عوامل پر تعامل کیا جائے تو یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے بصورت دیگر یہ اونٹ ٹیڑھی ہی رہے گی اور اس کی کونسی کل سیدھی ہے وہ سامنے نہیں آئے گا۔جس ادارے نے الیکشن کرانے ہیں اس کے اعتراضات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور ہر اعتراض جو کیا جا رہا ہے اس کا صاف اور شافی جواب ملنا چاہئے ۔گندم کے سوال پر اگر جواب چنا قسم کا دیا جائے گا تو کون مطمئن ہو گا؟۔معزز وزرا پریس کانفرنس میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ دوسرے ارکان آگے بڑھیں اور چیف الیکشن کمشنر کے فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔ کیا یہ بیان الیکشن کمیشن کے ارکان کو اس آئینی ادارے کے اندر بغاوت پر اکسانے کے مترادف نہیں؟ کیا آئینی اداروں کے ارکان کو اس قسم کے اقدامات کے لیے ابھارنا درست اقدام ہے؟الیکشن کمیشن کے ارکان کا مینڈیٹ اور اختیارات کیا ہیں اور قانون قاعدہ ان سے کیا تقاضا کرتا ہے معزز ارکان اس معاملے کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور اعلی سطح پر کام کرنے کے ان کے تجربے کے پیشِ نظر ایسا نہیں لگتاکہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے وزرا کی تجاویز کی ضرورت درپیش ہو۔ اس قسم کی دخل اندازی کا نتیجہ تصادم اور اداروں کی کمزوری کے سوا کچھ نہیں ہو سکتاچونکہ ریاست کے اندر قومی انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے اس لیے اصولی طریقہ یہی ہو سکتا تھا کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کے مابین ووٹنگ مشین پر بات چیت چلتی اور کمیشن جو اعتراضات اٹھا رہا تھا حکومت ان کے جواب دیتی اور کمیشن کو مطمئن کرتی۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں کسی معاملے یا مسئلے کو اسی طرح ہی حل کیا جاتا۔ ایسا نہیں کہ دیگر ممالک میں حکومتوں اور اداروں کے درمیان اختلافات پیدا نہیں ہوتے مگر وہاں پر اختلافات کو ذاتیات کی حد تک نہیں بڑھایا جاتا اور قواعد و ضوابط کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں بھی یہی اصولی طریقہ کار اپنایا جائے تو اختلاف کبھی بھی ذاتیات کی حد تک طول نہ پکڑیں الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر حکومت اس معاملے میں بے صبری کا مظاہرہ کرے بھی تو وہ پھر بھی احتیاط کا دامن نہ چھوڑے جبکہ حکومت اس معاملے میں اپنی دلچسپی کو مسلط کرتی ہوئی محسوس نہ ہو۔ حکومت کی یہ تجویز انتخابی اصلاحات میں سے ایک نکتہ ہے اس ایک نکتے پر اڑ جانا اور انتخابی شفافیت آزادی اور انصاف کے دیگر تقاضوں کو پس پشت ڈال دینا اصولی طور پر درست نہیں۔قومی اداروں کو الزام تراشی کے ذریعے متنازعہ بنانے کا عمل خطرناک ہے عدلیہ اور پارلیمان تک اس سے محفوظ نہیں سیاستدانوں کو اپنے مقاصد کے لئے اداروں کو منشاء کے مطابق چلانے سے باز آنا چاہئے آئینی اداروں کا احترام ہو اورہرپہلوسے غور کرنے کے بعد فیصلہ اور اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار اپنانا چاہئے تاکہ انتخابات کی وقعت ہو اور ملک میں عوام کی رائے کے مطابق حکومت قائم ہوجس پر انگلی اٹھانے کی نوبت نہ آئے۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments