ڈرامے کا ڈراپ سین کرنا ضروری ہے

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حالیہ دنوں میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ کے معاملہ کو ڈرامہ قرار دیا ہے ۔ دوسری جانب مریم نواز نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں سابق چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ کس نے انہیں مجبور کیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کی اگر سزا نہیں بنتی تھی تو بھی سزا دیں اور کس نے کہا کہ عمران خان کوآپ نے لانا ہے۔ مریم نوازنے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کی گواہی کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے آئی اور انہیں نکال دیا گیا ۔پھر گلگت بلتستان کے چیف جج کا بیان حلفی سامنے آیاانہوں نے ثاقب نثار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پاکستان میں انصاف کی بلند ترین کرسی پر بیٹھے تھے اور وہ کون تھا جسے آپ چیف جسٹس آف پاکستان ہوتے ہوئے بھی انکار نہیں کرسکیمتنازعہ آڈیوسامنے آنے کے بعدطرح طرح کے سوالات اور تبصروں کے باعث سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی مشکلات میں مزیداضافہ ہوگیا ہے اورپاکستان بارکونسل کے ساتھ ساتھ حکومتی شخصیات نے بھی آڈیوکی تحقیقات کامطالبہ کردیاگیاہے ،سوشل میڈیاپرسابق چیف جسٹس سب سے زیادہ موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔پاکستان بارکونسل نے آڈیو ویڈیو لیکس تحقیقات کے لیے ٹروتھ کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔بار کونسل کا کہنا ہے کہ کمیشن میں غیر متنازع وکیل’ سول سوسائٹی کا نمائندہ اور صحافیوں کو بھی شامل کیا جائے’ کمیشن الزامات کی تحقیقات کرکے سچ عوام کے سامنے لائے۔وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کا کہنا ہے کہ رانا شمیم کے بیان حلفی اور ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو سے عدالتی ساکھ متاثر ہو رہی ہے’ عدالت اپنی ساکھ بچانے کے لئے حقائق سامنے لائے’ یہ صرف کمیشن کے قیام سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔وفاقی وزیر شبلی فراز نے بھی کہا ہے کہ عدالت کو خود چاہئے کہ اگر ان کے کسی برادر جج کے بارے میں کوئی ایسی بات ہوئی ہے تو وہ سو موٹو نوٹس لے۔دوسری طرف سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کلپ کا فرانزک تجزیہ کرنے والی امریکی فرم گیرٹ ڈسکوری نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے اس کام کی وجہ سے دھمکی آمیز فون کال موصول ہوئی ہے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ کال کہاں سے کی گئی۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آڈیو کلپ کو من گھڑت قرار دینے پر ہی ا کتفا کیا ہے اور ان کی جانب سے کسی قانونی کارروائی نہ کرنے اور کوئی شکایت درج نہ کرانے کا عندیہ دیا گیا ہے ان کی چپ سو سوالات کاباعث اور غلط فہمیوں کی بنیاد بن رہا ہے۔پے درپے عدلیہ اور اس کے فیصلوں کے بارے میں سامنے آنے والی گواہیاں اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ میں اس امر کا تعین کرنا نہایت مشکل کام ہے کہ حقیقت اور پراپیگنڈا میں تمیز کی جا سکے لیکن ا ٹھتی ہوئی طاقتور آوازوں اور الزامات کے بعض مبینہ ثبوتوں پر جس قسم کی چپ سادھنے کا رویہ اختیار کیاگیا ہے ایک مقتدر ادارے کی ساکھ کے سوال کے باوجود جس قسم کی مصلحت کوشی اختیار کی جارہی ہے وہ شکوک و شبہات میں اضافے اور الزام لگانے والوں کے بیانیہ کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں جس پر خاموشی اختیار کئے رکھنے کا مطلب سرتسلیم خم بھی لینے کی گنجائش ہے اگر ایسا ہی ہے یا ایسا ہی ہوا تو یہ حیران کن بات ہو گی۔ سب سے بڑھ کر یہ مقتدر اداروں اور انصاف کے اعلیٰ عہدیداروں کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کا جب تک جواب نہیں آئے گا اس حوالے سے شکوک و شبہات بڑھتی جائیں گی جو اداروں کی ساکھ کے حوالے سے کوئی مثبت امر نہیں۔وزیراعظم عمران خان کے بطور حکمران اسے ڈامہ قرار دینا کافی نہیں اگر یہ ڈرامہ ہے تو پھر عدالت کے وقار اور ملکی نظام سے جس قسم کا کھلواڑ کیا جارہا ے اس کی تحقیقات اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے کر ہی اس پراپیگنڈے کا راستہ روکا جا سکتا ہے جو بطورحکمران وزیر اعظم کا فرض بنتا ہے۔ پاکستان بار کونسل اور خود حکومتی شخصیات کا آڈیو کی تحقیقات کا مطالبہ بے جا نہیں بجا ہے معزز عدالت عظمیٰ کو مشورہ دینا ہمارا منصب نہیں لیکن اس کے وقار کا تقاضا ہے کہ اس معاملے پر سکوت کی بجائے کوئی مناسب قانونی راستہ اختیار کرکے عدالت کے وقار کا تحفظ یقینی بنایا جائے غلط فہمیوں کا خاتمہ اور اس ڈرامے کا ڈراپ سین کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ منصف کی کرسی پر عرصہ فائز رہنے والے شخص جس کا دامن صاف ہے تو پھر امر مانع ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کرکے انصاف لے اور الزامات لگانے والوں کے خلاف جو بھی کارروائی بنتی ہو وہ روبہ عمل لانے کو یقینی بنانے سے ہچکچارہے ہیں فطری سی بات ہے کہ جب تک اس حوالے سے کنی کترانے کا عمل جاری رہے گی ابہام اور غیر یقینی کی کیفیت جاری رہے گا اور معزز اداروں کا وقار اور احترام سوالیہ نشان بنا رہے گا اس معاملے کو یقینی انجام تک پہنچانے کے لئے تحقیقاتی کمیشن سوموٹو یا جو بھی دیگر طریقہ کار ہوں اختیارکئے جائیں اور اس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔جتنا جلد حقیقت کھل کر سامنے آئے گی یا پھر اسی مبینہ ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گا اتنا ہی بہتر ہو گا اور حکومت کی ساکھ بھی بحال ہوگی۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت