ریلوے ڈرائیور ‘ دہی اور کیٹس آئیز

لاہور ڈویژن کے کاہنہ کاچھا ریلوے سٹیشن کے قریب ایک اسسٹنٹ ڈرائیور نے ریل گاڑی روک کر دہی لینے بازار چلا گیا تھا جس پر وزیر ریلوے نے ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور کو معطل کرکے متعلقہ حکام سے کارروائی کرنے کا حکم جاری کردیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اس طرح کے واقعات مستقبل میںبھی برداشت نہیں کئے جائیں گے ‘ تاہم اس واقعہ سے یہ پتہ ضرور چلتا ہے کہ متعلقہ ڈرائیور نے یہ ”وقوعہ” کوئی پہلی بار نہیں کیا بلکہ وہ یہ کام عام طور پر نہ جانے کتنی مدت سے کرتا آرہا ہے البتہ یہ حرکت پہلی بار کسی نے ویڈیوبنا کر وائرل کر دی ہے اور پاکستان بھر میں دیکھی گئی ہے۔ یہاں پشتو کا ایک محاورہ یاد آنا فطری امر ہے یعنی ”اموختہ بلا بہ بسم اللہ نہ زی” مطلب یہ کہ عادی بلا کو بسم اللہ کے ورد سے ٹالا نہیں جا سکتا ‘ اور جو نہ جانے کب سے کاہنہ کاچھا ریلوے سٹیشن پر گاڑی لا کر کھڑی کرنے کا عادی ہے اس میں بے چارے کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ اس سے یہ فرمائش اس کے گھروالے کرتے ہوں کہ آتے ہوئے کاہنہ کاچھا کے بازار سے ”اچھی” دہی ضرور ساتھ لانا ورنہ گھر میں گھسنے نہیںدیا جائے گا ۔ اب بے چارہ کیا کرتا ‘بلکہ اردو محاورے کے مطابق کرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ”عادی” ہوچکا ہو گا کہ گھر جاتے ہوئے گھر والوں کے لئے دہی ضرور لیکر جانا ہے اگرچہ گھر والے اگراپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اس پرگھر کے دروازے بند بھی کر دیں تب بھی وہ ریلوے انجن میں جا کر سونے کا شوق پورا کرسکتا تھا مگر شاید ضرورت سے زیادہ ہی ”زن مرید” واقع ہوا ہو گا اس لئے پسنجروں کے رسک پرگاڑی کھڑی کرنے میں اسے کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا اور وہ جب بھی گاڑی لیکر وہاں سے گزرتا ہو گا تو مسافروں کوتھوڑی دیر کے لئے وہاں کے ماحول کو انجوائے کرنے کے لئے کھڑا کرکے خود دہی لینے بازار جانے کا معمول بنا چکا ہو گا ‘ اب وزیر ریلوے کس کس کو سرزنش کرتے رہیں گے کہ ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت تو موجود ہی نہیں کہ کسی”حادثے” کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ماضی کے ایک بھارتی وزیر ریلوے کے وہاں ہوئے ایک ٹرین حادثے پر مستعفی ہو گئے تھے ‘ بلکہ ہمارے ہاں توجواب سامنے آتا رہا ہے کہ ”میں کوئی ٹرین ڈرائیور ہوں جو حادثے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دوں”۔ مزے کی بات ہے کہ بہت بعد میں بھارتی صوبہ بہار کے ساتھ وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادیو بھی جب مرکز میں وزیر ریلوے بنے تو اسی طرح ایک ٹرین حادثے پر انہوں نے بھی پاکستانی وزراء کی طرح کا بیانیہ اختیار کرتے ہوئے کہ وہ کوئی ٹرین ڈرائیور تو نہیں ‘ مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا’ خیر اب دیکھتے ہیں کہ متعلقہ اسسٹنٹ ڈرائیور کے ساتھ کیا ” سلوک” روا رکھا جاتا ہے کیونکہ ریلوے میں بھرتیوں کی بھرمار سے ویسے بھی اس ادارے کا بیڑہ غرق کیا جا چکا ہے اور ضرورت سے زیادہ (سیاسی بنیادوں پر ) بے انتہا بھرتیوں سے اس کا ”بٹھا بلکہ ٹریک” یعنی پٹڑیاں پہلے ہی بیٹھ چکی ہیں ‘زمین میں دھنس چکی ہیں ‘ تاہم کسی کو جواب دینے کا حوصلہ نہیں ہے کہ بلا ضرورت اتنی بھرتیوں سے ملکی معیشت پر اتنا دبائو کیوں ڈالا گیا ہے ‘ کیونکہ بڑی سیاسی جماعتوں کو ادارے سے زیادہ اپنے ووٹوں کی فکر پڑی رہتی ہے ۔ کہ بقول منیر نیازی
صبح کا ذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی اور دل لہوسے بھرگیا
ویسے ذرا غور کیا جائے تو یہ ”ریل گاڑی” روکنے کے تماشے ہمارے شہر میں ایک اور طرح سے ہو رہے ہیں ‘ حیران مت ہوں ‘ بس طریقہ واردات پر نظر ڈالیں ‘ کچھ مدت پہلے اخبارات کے کالموں ‘ تبصروں اور خبروں میں احتجاج کے بعد شہر کی بڑی سڑکوں ‘ گلیوں وغیرہ تک سے کیٹس آئیز ہٹا کر سڑکوں کو نسبتاً محفوظ بنا دیا گیا تھا ‘ کیونکہ ان کیٹس آئیز سے آئے روز حادثات کی شکایات سامنے آرہی تھیں ‘ اور اصولی طور پر بھی ”بلی کی یہ آنکھیں” سڑک کے کنارے لگائی جاتی ہیں تاکہ خصوصاً رات کے وقت ان پر گاڑیوں کی لائٹس پڑیں تو سڑکوںکی حدود دیکھ کر ڈرائیور حضرات احتیاط سے ڈرائیورنگ کریں ‘ مگر ہمارے ہاں تو ویسے بھی باوا آدم نرالا ہے’ متعلقہ ٹریفک پولیس نے سڑکوں کے بیچوں بیچ تین تین سے چار چار کی قطاروں میں ”بلیوں کی آنکھیں” لگا کر ان سے سپیڈ بریکروں والا کام لینا شروع کر دیا تھا جن کی وجہ سے نہ صرف آرام دہ گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو جھٹکے لگتے تھے بلکہ رکشہ اور ٹیکسیوں کی چھتوں سے ٹکرا اور پہیوں کی اچھل کود سے متاثر ہونے والوں کی حالت دیدنی ہوتی تھی خصوصاً عمر رسیدہ اور بیمار لوگوں کی جو حالت بنتی تھی اس پر کوئی کیا تبصرہ کرے ماسوائے اس کے کہ شیندہ کے بود مانند دیدہ ‘ یعنی جس تن لاگے سوتن جانے ‘ جن کے ساتھ یہ حادثے رونما ہوتے رہے ہیں وہی اپنے اپنے تجربات کی تلخی بیان کرسکتے ہیں ‘ تاہم میڈیا پر مسلسل احتجاج کے بعد یہ بلی والی آنکھیں سڑکوں ‘ گلیوں کے درمیان سے ہٹا کر شہریوں کو قدرے اطمینان کا سانس لینے کی”اجازت” مرحمت فرما دی گئی ‘ مگر اب دوبارہ یہ عذاب شہریوں پرمسلط کرنا شروع کر دیا گیا ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے باردگر کیٹس آئیز کی دو دو تین لائنوں کا عذاب اگا دیا گیا ہے ‘ یہاں تک کہ مختلف فلائی اوورز کے بیچوں بیچ بھی ایک سرے سے دوسرے سرے تک لمبی قطاروں میں ”آنکھیں ہی آنکھیں” اگ آتی ہیں دروغ برگردن راوی اس عذاب کو شہریوں پر مسلط کرنے کے پیچھے مبینہ طور پر ٹائر ٹیوب بنانے والی کمپنیوں کا ہاتھ ہے کیونکہ ان ابھرے ہوئے لوہے کی اونچی اونچی اینٹوں پر سفر کرتے ہوئے گاڑیوں کے ٹائر اگر مکمل برسٹ نہ ہوں تو اس قدر بوسیدہ ضرور ہو جاتے ہیں کہ انہیں تبدیل کرنا لازمی ہو جاتا ہے اور ”حادثات” کے خدشات بہرحال موجود رہتے ہیں اس لئے متعلقہ ٹریفک حکام سے یہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ
آپ ہی اپنی ا دائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟