پاک روس فاصلے سمٹنے لگے

گزشتہ دو دہائیوں میں ترقی یافتہ ملکوں کے طرز عمل خصوصاً دوطرفہ تعلقات میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کا کچھ عرصہ پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مخاصمت اور محاذ آرائی کی روش اب دوستی اور تعاون میں بدل چکی ہے۔ وہ ممالک جنہوں نے ایک وقت اپنی سرحدیں تک ہمسایہ ملکوں کیلئے بند کرنے کر دی تھیں، اب ان کے درمیان نہ صرف اچھے تجارتی تعلقات قائم ہیں بلکہ ثقافتی تبادلے اور اقتصادی تعاون بھی کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عالمی سیاست میں یہ تبدیلی کیسے ممکن ہوئی ہے؟ دراصل تنازعات کی وجہ وہ مصنوعی نظام تھا جسے بڑی طاقتوں کی طرف سے دیگر ممالک کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کیلئے وضع اور مسلط کیا گیا تھا اس نظام کو سرد جنگ کا نام دیا گیا، جس میں روس (سابق سوویت یونین) اور امریکہ دو بڑی طاقتیں تھیں جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان کو فتح کیا اور دنیا کو تقسیم کر دیا۔ اس تقسیم سے دونوں ممالک ”سپر پاور” بن گئے جبکہ دنیا کے تقریباً دو سو دیگر ممالک غربت اور پسماندگی کی دلدل میں دھنسے رہے۔ 1989ء میں ”دیوار برلن” کے غیر متوقع طور پر گرنے سے یورپ میں سیاسی ہلچل کا آغاز ہوا جو بالآخر سوویت یونین کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے کا باعث بنا۔ جہاں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کے تقریباً تمام ممالک نے مجبوراً اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں میں ضروری تبدیلیاں لائیں وہیں سوویت یونین ( روس)کو بھی بیرونی دنیا خصوصاً ہمسایہ ملکوںکے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سطح پر جو فضاء قائم ہوئی،اس نے یقیناً پاکستان اور روس کے درمیان بھی مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سرد جنگ کے دوران پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم نہ ہو سکے جس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں ممالک مخالف کیمپوں میں تھے۔ اُس وقت بھارت روس کا قریبی اتحادی تھا لیکن ہمیشہ کی طرح بھارت کی دوستی اس کے ذاتی فائدے تک محدود ہے اس لئے اس نے اپنی توجہ (ہتھیاروں کی خریداری ) روس سے امریکہ کی طرف تبدیل کردی چنانچہ اس سے روس کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کیلئے آزاد ہو گیا۔ پاکستان اور روس کے اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے 2018 ء میں جوائنٹ ملٹری مشاورتی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کا مقصد پاک روس دوطرفہ فوجی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ روسی جنگی جہازوں نے فروری 2021ء میں بحیرہ عرب میں پاکستان کی میزبانی میں 45 ملکی امن 21 مشقوں میں حصہ لیا جو ہر دو سال بعد منعقد ہوتی ہیں۔ نومبر 2020 ء میں روسی سپیشل آپریشنز فورسز کے دستوں نے تربیلا ٹریننگ گرائونڈ میں پاک فوج کے ساتھ دوستی 2020ء مشقوں میں حصہ لیا۔ علاوہ ازیں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بین الاقوامی عسکری تعلیمی پروگرام میں پاکستان کی شرکت ختم کی تو پاکستان نے فوجی افسران کی تربیت کیلئے ماسکو کے ساتھ سکیورٹی ٹریننگ کے معاہدے پر دستخط کئے ۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معیدیوسف نے حال ہی میں ماسکو کا دورہ بھی کیا ، ان کا یہ دورہ بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال کے پیش نظر دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تبادلوں کا حصہ تھااور یقینا اس سے دوطرفہ تعلقات و تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور روس افغانستان کے بارے میں یکسان موقف رکھتے ہیں اور دونوں ممالک نے طالبان حکومت کے ساتھ رابطوں کی کوشش کی ہے اور امریکہ سے افغان مرکزی بینک کے ساڑھے نو ارب ڈالر کے اثاثوں کو غیر منجمد کرنے پر بھی زور دیا ہے تاہم واشنگٹن افغان غیر ملکی اثاثوں کو طالبان پر دبائو بڑھانے کیلئے استعمال کررہا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی توقعات پر پورا اتر یں۔ روس اور پاکستان کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ افغان معیشت کی تباہی سے دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں پنپنے کا موقع مل سکتا ہے ۔ روس خاص طور پر افغانستان میں داعش سے لاحق خطرے پر تشویش میں مبتلا ہے۔ روس کراچی سے لاہور تک گیس پائپ لائن بچھانے کیلئے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے کے قریب ہے۔ اسی طرح روس، جو پہلے بھارت کا مضبوط اتحادی اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والا بڑا ملک تھا ،وہ اب پاکستان کے ساتھ بھی دفاعی تعلقات کو وسعت دینے کا خواہاں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ معید یوسف نے دورہ روس کے صدر ولادیمیر پیوتن کے دورہ بھارت چند روز قبل کیا ہے اور ان کے دورے کے وقت سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیو تن کا دورہ بھی زیربحث آیا ہو گا۔ اپریل2021ء میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لیورئوف نے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جس میں صدر پیوتن کا یہ پیغام پہنچایا کہ روس پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنے کیلئے تیار ہے جبکہ اس دوران باہمی اہمیت کے تمام معاملات پررابطے جاری رکھے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ مذکورہ تمام پیشرفت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا یوریشیا میں نئی ابھرتی ہوئی زمینی سیاسی صورتحال میں اہم کردار ہے جس کی وجہ اس کے جغرافیائی سیاسی محل وقوع، مضبوط جوہری صلاحیت کے ساتھ مضبوط فوج اور اسلامی دنیا میں نمایاں اثر و رسوخ ہے۔
(بشکریہ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ : راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو