بہلا رہے ہیں اپنی طبیعت خزاں نصیب

سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر نے گیس بندش کے فیصلے کو ہزاروں خاندانوں کے لئے روزگار کی مشکلات کا باعث قرار دیتے ہوئے اسے ناانصافی پرمبنی قرار دیا ہے ‘ جس کی وجہ سے کاروباری حضرات اور ٹرانسپورٹرز کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی معمولات زندگی کی انجام دہی میں شدید دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گیس فراہمی کے وقت پریشر انتہائی کم ہوتا ہے ۔ یاد رہے کہ سی این جی سٹیشنز پر گیس فراہمی کے حوالے سے کچھ پابندیاں عاید کی گئی ہیں ‘ جس کی وجہ سے گاڑیوں ‘ ٹیکسیوں اور رکشوں کی لمبی قطاریں ان گیس سٹیشنز پر لگی نظر آتی ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ اب پبلک ٹرانسپورٹ والوں نے کرائے بڑھا کر عوام کو”لوٹنے” کا سلسلہ شروع کردیا ہے ‘ عوام الگ سے خوار ہونا شروع ہوگئے ہیں ‘ خیر یہ توایک الگ مسئلہ ہے کہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے نتائج کیا برآمد ہوں گے یا ہورہے ہیں ‘ کیونکہ اس ملک کے عام غریب لوگ توویسے بھی”مردہ بدست زندہ” بن کر ”زندگی بے بندگی شرمندگی” کی تفسیر بن چکے ہیں ‘ مگر جس اہم بات نے ہمیں حیران کر دیا ہے(بے شک پریشان نہ بھی کر دیا ہو) وہ یہ ہے اور اس حوالے سے اب اخبارات میں خبریں بھی شائع ہونا شروع ہو گئی ہیں کہ سی این جی سیکٹر پر محولہ پابندی لگاتے ہوئے جوبیانیہ سرکار کا سامنے آیا تھا وہ یہ تھا کہ گھریلوصارفین کو بلا تعطل اور پوری قوت سے گیس فراہمی کے لئے سی این جی سیکٹرپرپابندی لگائی جارہی ہے ‘ اب صورتحال یہ ہے کہ سی این جی سیکٹرپربھی پابندی لگا دی گئی ہے مگر وہ جو ریلیف گھریلو صارفین کو دینا مقصود تھا اس کا کہیں نام و نشان ہی دکھائی نہیں دیتا ‘ اور اپنے 28نومبر کے بعد 7دسمبر کوشائع ہونے والے کالموں میں بھی ہم نے یہ گزارش کی تھی کہ عوام اتنے بھی بے وقوف نہیں ہیں کہ اس ” سرکاری ڈرامے بازی” کو نہ سمجھ سکیں یعنی جولالی پاپ اعلیٰ حکومتی عہدیدار اور سوئی گیس حکام انہیں باہم مل کر تھما رہے ہیں ‘ اس سے عوام واقعی بہل رہے ہیں حالانکہ صورتحال اس کے بالکل الٹ ہیں اور عوام کو ”بے وقوف” سمجھنے والے خود اس شعر کی مانند دکھائی دے رہے ہیں کہ
بہلا رہے ہیں اپنی طبیعت خزاں نصیب
دامن پہ کھینچ کھینچ کے نقشہ بہار کا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گھریلو صارفین کو سہولت فراہم کرنے کے لئے سی این جی سیکٹر پر قدغن بھی لگا دی گئیں جس کے الگ منفی نتائج برآمد ہونا شروع ہوئے ‘ یعنی ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے روز گار پر شدید اثرات بھی مرتب ہوئے اور عوام کو من مانے کرایوں پر نقل وحمل پر مجبور کیا جارہا ہے تو پھر کم از کم گھریلوصارفین کو گیس کی جس شدید بلکہ شدید ترین قلت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے اس سے تو ان کو نجات ملنی چاہئے تھی مگر نہ تو گھروں میں گیس کی فراہمی کا مسئلہ حل ہوا نہ ہی سی این جی سیکٹر کو حاصل سہولتیں برقرار رہیں’ صرف تین دنوں کی مہلت طلب کرنے والے سوئی گیس حکام کے پاس اب اس بات کا کیاجواز باقی رہ گیا ہے کہ ان ”تین دنوں” میں شہر بھر میں سوئی گیس پریشر مکمل بحال ہوجائے گا مگر دوڈھائی ہفتے گزرنے کے باوجود گیس پر ان ”بد بختوں” کا قبضہ ہے جو شہر بھر میں کمپریسر لگا کر اسے کھینچ رہے ہیں اور اپنے ”نیکسٹ ڈور” ہمسائے کے حق حقوق بھی غصب کرنے سے باز نہیں آتے ‘ خود تو تمام تر سہولتوں کے مزے لوٹتے ہیں مگر ہم ایسے قانون پر عملدرآمد کرنے والوں کا ہر طرح سے استحصال اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ‘ یقین کریں کہ ہمارے گھر(پورے علاقے میں)صبح ‘ دوپہر اور شام کے اوقات میں ہی تھوڑی بہت گیس دان کر دی جاتی ہے ‘ جس میں سے ”کمپریسر بدست” لوگ اپنا خراج وصول کرتے ہوئے اس سے بھی ہمیں محروم کردیتے ہیں ‘ مگر وہ جو وعدہ تین دنوں کا کیا گیا تھا اس کے وفا
ہونے کا کوئی نام ونشان ہی نظر نہیں آتا۔ یعنی فرمائے وعدہ نہیں ‘ وعدہ دگر بھی نہیں ‘ اب اہم سوال تواٹھتا ہے کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں یہ جو صوبے کی ضرورت سے کہیں زیادہ قدرتی گیس برآمد بھی ہو رہی ہے اور ساتھ ہی نئی فیلڈز سامنے آنے کی اطلاعات بھی آتی رہتی ہیں ‘ مگر ایم ایم اے دور سے لیکر موجودہ دور تک کسی بھی صوبائی حکومت میں یہ”سیاسی جرأت” پیدا نہیں ہوئی کہ وہ آئین کے تقاضوں پر مرکزی حکومتوں کو عمل درآمد پر مجبور کرکے ”اپنی گیس ‘ اپنا اختیار” حاصل کرسکے ‘ جس طرح ہماری بجلی پر مرکز قابض ہے اسی طرح گیس بھی ہمارے تصرف میں نہیں ہے ‘ تاہم ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جن تین دنوں میں”نام نہاد” پائپ لائنوں کی تبدیلی کا بہانہ بنا کر عوام کولالی پاپ تھما دیا گیا تھا ‘ وہ بھی اگر بالکل جھوٹے دعوے تھے کہ گیس پائپ لائنیں توبی آر ٹی کی تعمیر کے دوران ہی تبدیل کی جا چکی تھیں ‘ مگر جس طرح بلاوجہ عوام کو اپنے ہی گیس سے محروم کیا جارہا ہے ‘ وہ یقیناً چشم کشا اور تلخ حقائق ہیں جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ شہر کے کونسے”اہم اور مراعات یافتہ” علاقے ایسے ہیں جہاں اب بھی بھرپور پریشر کے ساتھ ایک لمحے کے لئے بھی گیس موجود ہے ‘مگر کیا کیا جائے کہ اگر سچ کہا جائے تو وہ ہندکو محاورہ سامنے آجاتا ہے کہ ”گہل کہندی اے تو منوں مونہوں کڈتے میں تنوں شہروں کڈنی آں” یعنی بات کہتی ہے کہ تومجھے منہ سے نکال ‘ میں تمہیں شہر سے نکال دیتی ہوں” اس لئے شہر کے لوگ خود ہی ان مراعات یافتہ علاقوں کا تصور ذہن میں لائیں جہاں گیس پریشر کا کوئی مسئلہ کبھی پیدا نہیں ہوتا ‘ سو اب یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ اگر سی این جی سیکٹر پر بھی دبائو ڈال کر وہاں گیس کی فراہمی کو مشروط کر دیا گیا ہے تواس وعدے پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جا سکتا کہ گھریلو صارفین کوکم پریشر کے عذاب سے گلو خلاصی دی جائے اور یہ جواخباری خبروں کے مطابق اس سے صورتحال مزید گھمبیر ہو رہی ہے بلکہ ہو گئی ہے ‘ تو عوام پر متعلقہ حلقوں کو رحم کب آئے گا؟۔
دوچار برس جتنے بھی ہیں جبر ہی سہہ لیں
اس عمر میں اب ہم سے بغاوت نہیں ہوتی

مزید پڑھیں:  صوبے کے مفادات کا کسی کو خیال بھی ہے