الیکشن کمیشن کو اتنابھی بے وقعت نہ کیا جائے

الیکشن کمیشن کی جانب سے واضح ہدایات کے باوجود بھی سیاسی جماعتوں کے ایم پی ایز اور ایم این ایز بلدیاتی الیکشن میں کود پڑے ہیں اپنے حمایتی امیدواروں کی کامیابی کیلئے شہر کے مختلف علاقوں میں تعمیرات اور مرمت کا سلسلہ جاری ہے جبکہ گلی محلوں کی پختگی اور بجلی کے کھمبے وغیرہ لگانے کے وعدے بھی کئے جارہے ہیں۔امر واقع یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے برعکس ہورہا ہے کارنر میٹنگز میں لائوڈ سپیکر کا استعمال بھی عام ہے سکیورٹی کے بغیر گنجان رہائشی علاقوں میںاجتماعات بھی منعقد کرائے جارہے ہیں اس طرح تشہیری مہم پر بھی مقررہ حد سے زائد پیسے خرچ کئے جارہے ہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جرمانے لگنے کے بعد بھی سیاسی عناصر اپنی روش بدلنے پر تیار نہیں اور وہ دھڑلے سے خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں الیکشن کمیشن کے جن احکامات کی کھلے عام خلاف ورزی ہو رہی ہے وہ ایسا نہیں کہ پوشیدہ ہوں اور ان کا جائزہ لیکر نوٹس لینے کے لئے اضافی عملہ اور لوازمات درکار ہوں کھلم کھلا خلاف ورزیاں الیکشن کمیشن کے حکام کا منہ چڑا رہے ہیں جس سے الیکشن کا عمل متاثرہونے کا خدشہ ہے مقررہ سائز سے بڑے بینرز سے عمارتوں کو ڈھک دینا اور روپے پیسے کا کھلا استعمال کسی طور قابل قبول امر نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی قوانین میں اس کی گنجائش ہے الیکشن کمیشن کے صوبائی حکام کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور ایسے تمام بینرزاتروا کر بینرز لگانے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے تاکہ الیکشن کمیشن کا انتخابی ضابطہ اخلاق مذاق بن کر نہ رہ جائے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹس لینے اور جرمانہ کے باوجود بھی ضابطہ اخلاق کی عدم پیروی قانون سے کھلواڑ ہے جس کا نوٹس لیکر سخت کارروائی اور متعلقہ امیدواروں کوار قانون میں گنجائش ہے تو نااہل قرار دینے اور انتخاب روکنے پرتوجہ کی ضرورت ہے تاکہ جن لوگوں نے ضابطہ اخلاق کو مذاق بنا دیا ہے ان کو کچھ احساس دلایا جاسکے۔
منصوبہ احسن مگر سنجیدگی شرط ہے
چوکارہ میں بیری کا پودا لگا کر بیری شہد پیداوار منصوبہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے گورنر شاہ فرمان نے کہا کہ بیری شہد کی پیداوار کیلئے کرک، کوہاٹ، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان انتہائی استعداد کے حامل ہیں خیبر پختونخوا30ہزار میٹرک ٹن سے زائد معیاری شہد کی پیداوار کی استعداد رکھتا ہے مقامی زمینداروں کو بیری شہد کی پیداوار کیلئے تمام وسائل فراہم کریں گے بیری شہد کی بہترین ذائقہ اور صفر ٹمپریچر پر منجمد نہ ہونیکی وجہ سے دنیا بھر میں ڈیمانڈ ہے، سعودیہ، چین سمیت باقی ممالک کے سفرا نے بیری شہد میں سرمایہ کاری کیلئے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔بیری شہد کی پیداوار میں اضافہ کے لئے حکومتی کوششیں کاروبار کے ساتھ ساتھ روزگار کا فروغ اورخود روزگار کے مواقع میں اضافہ کی مساعی ہیں بیری کے پودے لگانے سے علاقے میں شجرکاری کا دوہرا فائدہ بھی حاصل ہو گا قبل ازیں گورنر زعفران کی کاشت کے حوالے سے اس طرح کی سعی کر چکے ہیں امر واقع یہ ہے کہ کسی سرکاری پروگرام کے آغاز سے اس امر کی توقع وابستہ کرنے میں احتیاط کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے کہ عموماً سرکاری سطح پر شروع کر دہ پروگراموں کو چلانے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سنجیدگی سے کام نہیں لیا جاتا اور یہ منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں اسی دور حکومت میں اس طرح کے کئی منصوبوں کی مثال دی جاسکتی ہے کہ ان پرحقیقی معنوں میں اور استقامت سے کام جاری رکھا جا تا تو دیہی اور پسماندہ علاقوں کے عوام کے محدود روزگار کا معقول بندوبست ہوجاتا اسی طرح عوام بھی حکومت سے عدم دلچسپی او ر نقد امداد کے زیادہ منتظر ہوتے ہیں یہ بھی ناکامی کی ایک وجہ ہے ان تمام اقدامات کے باوجود یہ احسن منصوبہ ہے جس کے لئے لوگوں میں شعور و آگہی پیدا کرنے اور حکومتی ذمہ داریوں میں دلچسپی دونوں کی ضرورت ہے مگس بانی کی تربیت اور اس کے لئے وسائل کی فراہمی کے حوالے سے بھی اقدامات کئے جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
چین میں زیر تعلیم طلبہ کا مسئلہ حل کیاجائے
چین کیلئے براہ راست فلائٹ نہ ہونے کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے سات ہزار طلبہ کا تعلیمی مستقبل دائو پر لگ گیا ہے کورونا کی وبائی صورتحال کے دوران چین کی مختلف یونیورسٹیز میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کو واپس بھیجا گیا تھا لیکن ایک سال گزرنے کے بعد بھی ان طلبہ کو چین جانے میں مشکلات کا سامنا ہے کورونا کے باعث طلبہ کا ایک سال تو ضائع ہوادوسرا تعلیمی سال بھی ضائع ہو رہا ہے جسے بچانے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔اس ضمن میںقبل ازیں بھی طلبہ کی طرف سے مطالبات کئے جاتے رہے ہیں جب کورونا کی صورتحال معمول پر آچکی ہے اور ویکسین لگانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے اس کے باوجود چین میں زیر تعلیم طلبہ کی واپسی کے حوالے سے وزارت خارجہ کے حکام کی لیت و لعل سمجھ سے بالاتر ہے جتنا جلد ہو سکے طلبہ کو چین بھجوانے کا بندوبست کرکے ان کا تعلیمی سال بچایا جائے۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟