او آئی سی اجلاس ‘ توقعات کیا ہیں؟

حکومت پاکستان نے دسمبر کو اسلام آباد میں اسلامی مما لک کی تنظیم او ائی سی کا ایک اہم اجلاس بلا یا ہے۔ اجلا س میں او آئی سی کی ممبر ممالک کے علاوہ یورپین یونین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پی گروپ کے مندوبین بھی شرکت کرینگے۔ اجلاس کا مقصد بین الاقوامی برادری کی توجہ افغانستان کے اندر سنگین صورتحال اختیار کرتی انسانی بحران کی طرف مبذول کرانا ہے۔ دریں اثنا افغانستان کے ڈپٹی نائب وزیر اطلاعات و نشریات ذبیح اللہ مجاہد نے بین الاقوامی برادری اور خصوصاً اسلامی مما لک کی تنظیم پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں ان کی حکومت کو تسلیم کرکے افغان عوام کے ساتھ تعاون کریں۔ اسی اثنا میں افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھی بین الاقوامی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں ان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے افغان عوام کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو انٹر ویو دیتے ہوئے انہوں نے امریکہ سے بھی کہا ہے کہ وہ ان کے دس ارب ڈالر کو واپس کرکے افغان عوام کو اس عظیم انسانی بحران سے نکالنے میں انکا ساتھ دیں۔ امیر خان متقی نے انسانی حقوق اور خصوصاً خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنے نرم ہوتے موقف کا واسطہ دیتے ہوئے کہا کہ اب طالبان دنیا کے سنگ چلنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں سکول فعال ہیں ، وہاں بچیاں سکول جانا شروع ہوچکی ہیں، محکمہ صحت میں کام کرنے والی تقریباً سو فی صد خواتین اپنے کام پر واپس آچکی ہیں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ دنیا افغان عوام کی مشکلات کو سمجھ کر اس مشکل گھڑی میں انکا ساتھ دینگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت افغانستان ایک نازک موڑ پر کھڑا بین الاقوامی امداد کا منتظر ہے۔ افغان حکومت ایک طرف بد ترین معاشی بد حالی کا شکار ہے تو دوسری طرف سیاسی ایسولیشن کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہوکر رہ گیا ہے۔ سماجی طور پر بکھرا ہوا ہے۔ لوگ ٹھٹرتی اور منجمد کردینے والی سردی میں بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اشیائے خورد ونوش کی قلت کی وجہ سے لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔ بینکوں کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ لوگ بینکوں سے پیسے نکالنے کیلئے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوتے نظر آتے ہیں لیکن بینکوں میں کیش کی قلت کی وجہ سے انہیں واپس جانا پڑتا ہے۔ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے بھی بین الاقوامی برادری سے افغان عوام کی مدد کی اپیل کی ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی برادری اور خصوصاً امریکہ مسلسل بضد ہے کہ وہ تب تک افغان حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی جب تک وہ ملک کے اندر انسانی حقوق کی مکمل پاسداری کا یقین نہیں دلاتے۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کو کون مطمئن کرے کہ انسانوں کے جن حقوق کی حفاظت کی اتنی شد ومد سے بات ہورہی ہے پہلے ان لوگوں کی زندگی کی تو فکر کرو، اگر وہ زندہ رہینگے تو انکی حقوق پر با ت ہوسکتی ہے۔ طالبان کے پچھلے دور حکومت میں بین الاقوامی برادری کے اسی طرز عمل پر غصہ کھاکر جب وسطی افغانستان کے صوبہ بامیان میں بدھا کے مجسموں کو توڑ ڈالا گیا تو دنیا میں ایک شور اٹھا کہ طالبان نے عظیم تاریخی مجسموں کو گراکرثقافتی ورثے کو تباہ کرڈالا ہے۔ دوسری طرف افغان عوام بھوک سے مرتے رہے لیکن انسانی حقوق کے علمبرداروں کو ان کی تڑپتی لاشیں اور بھوک سے مرتے بچے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔پاکستان نے اسی وقت اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلاکر اس انسانی بحران کی طرف بین الاقوامی برادری کی توجہ دلانے کے لئے ایک اچھی کوشش کی ہے۔ گو کہ اسلامی ممالک میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ امریکہ بہادر کی طرف سے کوئی گرین سگنل ملے بغیر کوئی قدم آگے بڑھاسکے اور افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی متفقہ لائحہ عمل بنا سکے لیکن اسی اجلاس سے کم از کم اتنی توقع تو کی جاسکتی ہے کہ اس مشکل گھڑی میں افغان عوام کو اس دلدل سے نکالنے کے لئے وقتی طور پر کو ئی صورت نکل سکے۔ اسکے ساتھ ہی طالبان حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ جنگ زدہ افغان عوام کی خاطر،اس تباہ شدہ ملک کی خاطر، اور دہشت گردی کے مارے اس پورے خطے کی خاطر اپنے موقف میں نرمی پیدا کریں اور دنیا کے سنگ چل کر بین الاقوامی برادری کا حصہ بنے تاکہ انکا ملک آگے بڑے۔ افغانستا ن کے اندر امن آئے تو اس خطے کے عوام کی تقدیر بدل جائے گی، سی پیک، روڈ اینڈ بیلٹ انی شی ایٹیو(بی آر ئی)، کاسا اور ٹاپی جیسے بڑے بڑے منصوبے افغانستان کے اندر امن نہ ہونے کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔ اگر افغانستان کے اندر پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجا تا ہے تو اس پورے خطے میں سکون ممکن ہوسکے گا ۔ اس اجلاس سے توقع کی جا تی ہے کہ مسلم ممالک کے رہنما اس اہم معاملہ پر سر جوڑ کر بیٹھے اور پوری سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ اس کا کوئی متفقہ حل نکا لیں۔

مزید پڑھیں:  کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری