ہماری بات سمجھو ‘ ورنہ؟ کون سی بات؟

ممکت خداداد اہل پاکستان کے لئے نعمت عظمیٰ سے کم نہیں ‘ لیکن بعض بد بخت اور شقی القلب ایسے واقع ہوئے ہیں کہ اس عظیم و خوبصورت ملک کی قدر تو کیا کرتے ‘ ہمیشہ سے جب کبھی ان کے ذاتی مفادات پر ضرب پڑنے لگتی ہے یا کوئی انہیں آئین و دستور کے مطابق چلنے کی بات کرتا ہے ‘ تو وہ سارے اخلاق و ضوابط اور آئینی و دستوری تقاضے بالائے طاق رکھتے ہوئے مختلف کارڈز کھیلنے کی باتیں دہرانے لگتے ہیں ‘اور مخالفین پاکستان کو ہنسی مذاق کے مواقع فراہم کر دیتے ہیں۔اہل پاکستان کی ایک بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستان بنانے والے بہت جلد رخصت ہو گئے اور انہیں اساس مملکت کے استحکام کے مواقع نہ مل سکے ۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں بہت کم روشنی رہنے لگی۔اس کا پہلا اثر مشرقی پاکستان کے باشندوں پر شدید غربت کی صورت میں مرتب ہوا۔ مغربی پاکستان کے نااہل اور عاقبت نااندیش سیاستدانوں نے ان کے حقوق بالخصوص معاشی حقوق پہنچانے میں سخت کوتاہی کی ‘ جس کا وہاں وہاں کے ہندو اساتذہ اور قوم پرست سیاستدانوں نے بھر پور ناجائز فوائد سمیٹنے میں دیر نہیں لگائی ۔ نتیجتاً وہاں مشرقی پاکستان مرحوم ہوا اور بنگلہ دیش قائم ہوا۔ اس زمانے میں شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات (جس میں پاکستان کے توڑنے کی بات کم از کم نہیں تھی البتہ حقوق کی بات شدومد سے موجود تھی) بہت مشہور ہوئے اور یہاں ہمارے ہاں”ادھر تم ‘ ادھر ہم”اور ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اعلان شدہ اجلاس میں شرکت کے لئے جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی صدائیں بھی لوگوںنے سنی تھیں۔ اس المناک سانحہ کے بعد خیبر پختونخوا (تب صوبہ سرحد) سے بھی پختونستان اور لروبر یو افغان” کے نعرے لگے تھے اور اس کے لئے روس اور بھارت کی طرف سے باقاعدہ سیاسی و مالی امداد فراہم کی جاتی رہی ہے ۔ گھر کے بھیدی کے طور پر جمعہ خان صوفی کی تصانیف ”فریب ناتمام (اردوترجمہ)اور ریلنکٹنٹ نیشلسٹ” قابل مطالعہ ہیں ۔ بلوچستان کے مری قبائل اور خیر بخش مری اور دیگر قوم پرستوں کی تحریکیں اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک نظریاتی بنیاد رکھتی تھیں۔لیکن وقت کے ساتھ ایک تو ختم ہوئی اور دوسری میں وہ پہلی والی جان نہ رہی۔ تیسری پاکستان مخالف تحریک وقتاً فوقتاً سندھ جو باب الاسلام ہے سے اٹھتی رہی ہیں لیکن جی ایم سید کے علاوہ وہاں سے قوم پرستی کی جو بھی آوازیں اٹھتی رہی ہیں اس کے پیچھے خالص سیاسی و معاشی مفادات رہے ہیں۔
ایک خاص پاکستان کے لئے وطن عزیز کاذرہ ذرہ عزیز و محترم ومقدس ہونے کے علاوہ برابر اہمیت کا حامل ہے لہٰذا اس عظیم نظریاتی ملک میں کوئی اگر لسانیت ‘ قومیت ‘ وطنیت یا نام نہاد مذہب کے نام و بنیاد پر باسی کڑھی میں ابال لانا یا پیالی میں طوفان برپا کرنا چاہتا ہے تو اس کا نتیجہ منہ کی کھانے کے سوا کچھ اور نہیں ہو گا۔ وہ دن الحمد للہ!لا چکے ‘ مشرقی پاکستان کا معاملہ کچھ اور تھا اس میں سیاستدانوں ‘ جرنیلوں اور بیورو کریسی نے مل کر ایسی اجتماعی غلطیاں کیں کہ ان پر سزا کا مرتکب ہونا فطرت کا تقاضا اور مکافات عمل بن گیا تھا۔
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کومعاف
ان چند ناخوشگوار اور پاکستانی تاریخ کے تلخ واقعات کی یاد سندھ کے وزیر اعلیٰ جو خیر سے سادات خاندان سے تعلق رکھتے ہیںکی صوبائی اسمبلی میں جذباتی اور تندو تیز تقریر سے لوٹ آئی۔ اس بات کو شاید اب نقارہ خدا کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے کہ سندھ کے عوام بالخصوص تھر کے صحرائی عوام اور دیہاتوں کے غریب غرباء کی حالت پنجاب اور پختونخوا کے مقابلے میں بہت پست ہے اس کے باوجود وہاں گزشتہ تیس برسوں سے پی پی کی حکومت ہے جن کا دعویٰ ہے کہ عوام کو روٹی کپڑا مکان فراہم کرنا ہمارے منشور کا بنیادی نکتہ ہے اگرچہ اب لوگ اسے ایک سیاسی سٹنٹ اور انتخابی نعرہ ہی سمجھتے ہیں۔وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ساڑھے دس پندرہ برسوں میں سندھ کو وفاق سے اپنے حصے کے مد میں اربوں روپیہ دیا گیا ہے جسے عوام کی ترقی پر خرنا ہونا تھا لیکن مبینہ طور پر وہ مقتدر طبقات کی تجوریوں میں چھولے والوں ‘ کبابوں اور پکوڑوں و فالودہ والوں کے اکائونٹس کے ذریعے پہنچ چکا ہے اس وقت بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں’ اور اس کے لئے سندھ اسمبلی میں جوقانون سازی ہو رہی ہے اس پر وفاق اور اہل کراچی کو شاید تحفظات ہیں۔ نئی مردم شماری اگر ہوئی اور اس کے تحت انتخابات ہوئے تو کراچی میں صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کے سبب پی پی کے آنے والی اسمبلی میں اکثریت پر ضرور زد پڑے گا۔ شاید یہ اور بعض دیگر مسائل اور سوال و جواب کی وجہ سے وزیر اعلیٰ سندھ کا بلڈ پریشر اس حدتک بڑھ گیا تھا کہ سندھ کارڈ کے استعمال کی دھمکی دینے سے باز نہ رہ سکا حالانکہ ماروں گھٹنا ‘ پھوٹے آنکھ کے مصداق ‘ اسمبلی میں نہ اس قسم کی دھمکی کی ضرورت تھی اور نہ اب الحمد للہ یہ اور اس قسم کی دوسری دھمکیاں چلنے والی ہیں۔ کراچی کے کالعدم ایم کیو ایم کے الطاف حسین سے نہ سید مراد علی شاہ زیادہ زیرک ہے اور نہ ہی مقبول ‘ کراچی میں اس کے ایک فون پر پورا شہر بند ہو جاتا تھا ۔ لوگ ڈر کے مارے سانس نہیں لے سکتے تھے آج کراچی میں کسی کو اس کی پرواہ ہی نہیں اور گمنامی کی زندگی بسر کر رہا ہے اور یوں ہی گمنامی میں ایک دن لوگ خبر سنیں گے کہ الطاف بھائی چل بسے ۔ سیاست میں سو پینترے بدلنا شاید جواز رکھتا ہو اور سب لوگ بدلتے رہتے ہیں لیکن مملکت خداداد کو اس آڑ میں برا بھلا کہنا یا نقصان پہنچانے کی بات کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے چھوڑا نہیں ہے لہٰذا عبرت حاصل کرتے ہوئے بصیرت سے کام لینا چاہئے ۔
پاکستان صالح علیہ السلام کے معجزاتی اونٹنی کی مانند ہے جو کوئی بھی اس کی کونچیں کاٹنے کی نیت رکھتا ہو ‘ وہ مکافات عمل سے چھوٹ نہیں سکتا ۔ اس لئے سب کان کھول کر سنیں کہ سیاست میں ہزار موشگافیاں کریں لیکن ورنہ وغیرہ کی دھمکی نہ دیا کریں۔ اگر اس میں کسی کو شک ہے تو ذراذہن پر زور دے کر دیکھ لیں۔ اور ماضی قریب کے معاملات و واقعات پر نگاہ عبرت بھی ڈالیں۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے