لاقانونیت کے واقعات کاتدارک کیسے؟

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت اجلاس میں بلدیاتی انتخابات اور صوبے میں جاری پولیو مہم کے خصوصی تناظر میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور متعدد اہم فیصلے کئے گئے۔وزیراعلیٰ نے گزشتہ چند دنوں کے دوران صوبے کے بعض اضلاع میں پیش آنے والے بدامنی کے واقعات خصوصاًپولیو ٹیموں کی سیکورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر حملوں کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو ایسے واقعات کے موثر تدارک کو یقینی بنانے کے لئے ضروری اقدامات کی ہدایت کی ۔گزشتہ مہینے چارسدہ کے علاقے مندنی میں پیش آنے والا واقعے کو انتہائی افسوسناک اور ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ اسپیشل برانچ کے ذریعے واقعے کے تمام پہلوئوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ جلد پیش کی جائے، اس ناخوشگوار واقعے کے تمام محرکات کو سامنے لایا جائے اورآئندہ اس طرح کے واقعات کی موثر روک تھام کو یقینی بنایا جائے۔صوبے میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے واقعات کے پس پشت خا ص نوعیت کے حالات ہیں جس سے نمٹنے کی مساعی گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہیں اور اس میں کامیابی بھی ہوئی ہے اکا دکا واقعات کی گنجائش بہرحال رہتی ہے کوشش کے باوجو د پولیو ٹیموں اور ان کو تحفظ دینے والے اہلکاروں کے تحفظ میں ناکامی پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے لیکن حال ہی میں چارسدہ اور ملاکنڈ میں جو ناخوشگوار واقعات پیش آئے اس حوالے سے حکومت اور انتظامیہ کا کردار قانون سے کھلواڑ کرنے والوںسے سخت گیری اختیار کرنے کی بجائے ان معاملات کو ٹھنڈا کرنے اور فراموش کرنے کا نظر آتا ہے پولیس چند گرفتاریوں کو کافی سمجھ لیتی ہے اور حکومت پس پردہ وجوہات اور ذمہ دار عناصر کا کھوج لگا کر معاملے کی تہہ تک پہنچ کر اور پس پردہ کرداروں و تمام عوامل کو طشت ازبام کرکے بیخ کنی کی ذمہ داری کو شاید پر خطر سمجھتی ہے مصلحت کا شکار ہوتی ہے یا دبائو کا شکار ہوتی ہے جس کے باعث ہر وقت کسی نہ کسی جگہ کوئی نہ کوئی چنگاری سلگتی رہتی ہے اور ذرا سی مزید حرارت ملنے پرآگ بھڑک اٹھتی ہے یہی وہ بنیادی غلطی ہے جس کا ملک بھر میں اعادہ معمول کی بات ہے جب تک بڑے واقعات کی بڑے پیمانے پر تحقیقات اور برسوں بعد بھی کوئی سرا ملنے پر کارروائی کی ریت نہیں پڑے گی موقع پر آگ پر پانی ڈال کر بجھانے کو کافی سمجھاجاتا رہے گا قانون شکنوں کو نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک معاشرے میں انتہا پسندی و شدت پسندی کے واقعات لاقانونیت اور قانون شکنی کی حوصلہ شکنی نہیں ہو گی اور اس کے اثرات پولیو مہم سے لیکر انتخابی ماحول تک اور شہر یوں کی معمولات میں خلل تک اس کے اثرات کسی نہ کسی طور ظاہر ہوتے رہیں گے جس کا تدارک سطحی اقدامات سے نہیں ٹھوس بنیادوں پر اقدامات سے ہی ممکن ہے اس طرف جب تک سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جائے گی امن کو لاحق خطرات کے امکانات معدوم نہیں ہوں گے ۔
افغان عوام کی فوری مدد کی ضرورت
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کے مطالبے پر ردعمل دیتے ہوئے ترجمان وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکہ کو افغان عوام کے مسائل کا اداراک ہے لیکن منجمد اثاثوں کو فوری طور پر جاری نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔جین ساکی نے بتایا کہ افغان اثاثوں پر نائن الیون متاثرین نے بھی عدالت میں دعویٰ کر رکھا ہے، طالبان اب تک امریکا اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں جس کے باعث طالبان حکومت کو فائدہ پہنچائے بغیر افغان عوام تک امداد کی ترسیل کا طریقہ کار بھی وضع نہیں ہوسکا ہے۔ منجمد اثاثوں کی بحالی آسان اور سادہ عمل نہیں۔ یہ کئی دشوار گزار پیچیدہ اور چیلنجنگ مرحلوں کا مجموعہ ہے اس لیے منجمد اثاثے جاری کرنے کے حوالے سے کوئی اپ ڈیٹ نہیں دے سکتے۔افغانستان پر حملے کے وقت امریکا اور عالمی برادری نے لمحے کی بھی تاخیر نہ کی اور نہ ہی اس تباہ کن فیصلے پر عملدرآمد میں کوئی رکاوٹ اور قباحت نظر آئی اس کے باوجود اس امر سے اتفاق بھی کیا جائے تو اس وقت افغانستان میں جاری حالات بڑے انسانی المیے کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں ایسے میں افغانستان کے اثاثوں کی بحالی و فراہمی ہی کافی نہیں اور نہ ہی اس کا انتظار کیا جا سکتا ہے بلکہ صورتحال بلاتاخیر عملی امداد کا متقاضی ہے اس مسئلے پر او آئی سی کے اجلاس میں ممبر ممالک کو بھی غور کرنے اور لائحہ عمل مرتب کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے عالمی برادری افغانستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم کرتی ہے یا تحفظات رکھتی ہے اہم بات افغان عوام کی مدد ہے جن کی غیر رسمی طریقے سے جلد سے جلد امداد ضروری ہے ۔
لاینحل مسئلہ
پشاور کی نہروں کو نکاسی آب سے بچانے اور نکاسی کیلئے متبادل نظام کے منصوبے کا تخمینہ دو ارب55کروڑ روپے سے تجاوز کرگیا ہے جس کی منظوری کیلئے اسے وفاق ارسال کردیا گیا ہے اس کے بعد مستقبل قریب میں اس منصوبے پر عملدرآمد کی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی امر واقع یہ ہے کہ پشاور کی نہروں کو نکاسی کے پانی سے آلودہ ہونے سے بچانے کیلئے منصوبہ تجویز کیا گیا تھا اس منصوبے کو پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی مکمل کرے گی۔طویل عرصے سے منصوبہ بندی وسائل اور کنسلٹنٹ کے پھیروں میں گھرا یہ گھمبیر عوامی مسئلہ شاید ہی کبھی حل ہو اس حوالے سے عدالتیں بھی مداخلت کرکے اور احکامات دے چکی ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لئے جس سنجیدگی کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے اس مسئلے کا حل کوئی پرعزم اور دردل رکھنے والا حکمران ہی نکال سکتا ہے آئندہ کا نومنتخب میئر پشاور اگر دلچسپی لیں توشاید بہتری کی کوئی صورت نکل آئے۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے