گیس ناپید ہونے کا مژدہ ‘کیا کوئی متبادل حل نہیں؟

وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ سستی گیس کے عادی لوگوں کو عادتیں بدلنا ہوں گی، چند سال میں گیس نہیں رہے گی۔ گیس بحران کے حوالے سے کہنا تھاکہ 28 فیصد لوگوں کا بوجھ 72 فیصد لوگ اٹھا رہے ہیں، تمام شہروں میں سبسرڈائزڈ گیس ہے اور اس کا بوجھ ان 72 فیصد لوگوں پر آرہا ہے جن کے پاس گیس نہیں ہے اور وہ بڑے شہروں میں رہنے والے 28 فیصد لوگوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر سال 9 فیصد گیس کم ہو رہی ہے اور اگلے چند سالوں میں یہ ختم ہوجائے گی۔وزیر اطلاعات کی صاف گوئی اور انتباہ اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس اب ہر مسئلے کا حل یہی رہ گیا ہے کہ وہ اس سے عوام کوآگاہ کرے بعض مسائل کاحکومت سابقہ حکومتوں اور حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے گیس کی قلت کی بھی کچھ ایسی ہی توجیہہ پیش کی گئی ہے گویا اس کی ذمہ داری بھی شہری علاقوں کے گیس صارفین پرعاید ہوتی ہے وفاقی وزیراگر گیس چوری کی روک تھام میں ناکامی کے حوالے سے بھی اعداد وشمارسے آگاہ کرتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ مختلف معاملات بشمول گیس کے بحران کے حوالے سے دیکھا جائے تو حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی ہی دکھائی دے گی اور بحران پر قابوپانے اور آئندہ گیس کی شدید قلت کے مسئلے کے حل کے لئے اقدامات کے لئے سرے سے تیار نہیں کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ تاپی گیس منصوبے کے حوالے سے پیش رفت کی سعی کرے’ گیس کے مزید کنویںکھودنے کا کام شروع کیا جائے متبادل توانائی کے ذرائع کے استعمال کے منصوبے بنائے جائیں شمسی توانائی سے کھانا تیار کرنے اور حدت وحرارت پیدا کرنے کے عمل کو فروغ دیا جائے ۔ گیس کے موجودہ بحران کی بڑی حد تک ذمہ داری حکومت اور حکومتی فیصلوں پرعاید ہوتی ہے ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ پہلے سے موجود ایل این جی ٹرمینلز کو ان کی پوری صلاحیت کے مطابق استعمال نہیں کیا گیا؟ سردیوں کے چند ماہ میں حکومت14کارگوز کا انتظام کرسکتی تھی، مگر ایسا نہیں کیاگیا۔ دسمبر میں صرف 10 کارگوز ہی کا انتظام کیا جاسکا۔ ماہرین کے مطابق اصل حقیقت یہ ہے کہ ایل این جی ٹینڈر کرنے میں تاخیر کی گئی۔ حکومت کے پاس موقع تھا کہ وہ 6 سے 8 ڈالر میں ایل این جی لے سکتی تھی، مگر فیصلوں میں تاخیر اور نااہلی کی وجہ سے 6 سے 8 ڈالر میں ملنے والی گیس 30 ڈالر تک میں خریدنی پڑی۔ تمام تر دعووں کے باوجود روس کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر اب تک کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2019 سے مسلسل دعوئوں کے باوجود حکومت اب تک کوئی ایک نیا ایل این جی ٹرمینل نہیں لگا سکی۔ ایک کے بعد ایک بحران نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ جہاں گیس کی عدم دستیابی اہم معاملہ ہے وہاں اس کی قیمت میں روز بروز اضافے سے بھی لوگ پریشان ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں کے باعث سی این جی کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں اور گیس کے بحران نے عوام کو گھیر لیا ہے یہ تلخ حقیقت ہے کہ حکومت عوام کو کسی بھی شعبے میں ریلیف دینے سے مکمل قاصر رہی ہے۔ ہوشربا مہنگائی نے پہلے ہی عوام کی زندگی اجیرن بنائی ہوئی ہے، سی این جی کی قیمتوں میں کیا جانے والا حالیہ اور بہت زیادہ اضافہ صارفین کے لیے کسی صورت میں بھی قابلِ برداشت نہیں ۔ سی این جی کی بندش کے باعث سی این جی اسٹیشنوں کے مالکان اور اس شعبے سے وابستہ افراد پہلے ہی سخت پریشان ہیں، قیمتوں میں مزید اضافے اورگیس کی بندش سے ٹرانسپورٹ بھی براہ راست متاثر ہورہی ہے ۔گیس بحران میں شدت کی واحد وجہ اس کی قلت ہی نہیں بلکہ بروقت فیصلے اور انتظامات نہ ہونا بھی ہے اب تو بجلی کی طرح گیس کے بھی سرکلرڈیٹ میں اضافہ ہو رہا ہے جوعلیحدہ سے ایک سنگین مسئلہ اور بحران کا سبب ہے ۔ بجائے اس کے کہ وزراء ان کو تاہیوں پر توجہ اور اعتراف کے شہری اور دیہی علاقوں کے عوام کو آمنے سامنے لا کھڑا کرکے بری الذمہ ہونے کی سعی میں ہیں جو حیران کن سوچ ہے بہتر ہو گا کہ بحران کا حل تلاش کیا جائے اور آئندہ کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی ہونی چاہئے اور توانائی کے متبادل اور سستے ذرائع سے استفادہ کیا جائے۔سورج کی شکل میں قدرت نے ہمیں توانائی کا ایسا لامتناہی خزانہ دے رکھا ہے جس سے پورے ملک میں سال بھر کسی دشواری کے بغیر استفادہ ممکن ہے۔جنگی بنیادوں پر گھروں، کارخانوں، بازاروں، دفتروں، تعلیمی اداروں کو شمسی توانائی سے لیس کرنے کی مہم چلائی جائے تو کمپنیوں کی بجلی اور گیس پر انحصار میں بہت کم وقت میں قابل لحاظ کمی لائی جاسکتی ہے اور لوگ توانائی کی ضروریات میں بڑی حد تک خود کفیل ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  اس طرح سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی؟