گوادر میں حقوق تحریک

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کو دور سے دیکھنے والوں کو اس میں ترقی کا جزیرہ دکھائی دیتا رہا ہے ۔جس میں سی پیک کی برکات سے چہار سو روشنیوں کا راج ہوگا اور جہاں شہری سکھ اور چین کی زندگی گزار رہے ہیں ۔لوگوں کا کاروبار نہ صرف یہ کہ محفوظ ہوگا بلکہ وسعت پزیر ہوگا ۔کیونکہ اس خطے میں دنیا کی ایک بڑی معاشی سرگرمی ہونے جا رہی ہے ۔یہ دنیا بھر کی نظروں کا محور اور مستقبل کی سر د جنگ کا نیوکلئس نہیں تو کم از کم تائیوان کے بعد دوسرا اہم مرکز ہے۔اس کشمکش نے گوادر کی حساسیت کو بڑھا دیا ہے ۔پھر اسی علاقے میں ایک عسکری تحریک بھی جاری ہے جس کے ڈانڈے بیرونی دنیا کی سی پیک روکنے کی سوچ سے ملتے ہیں۔اب پتا چلا کہ گوادر کی یہ تصویر محض فریب ِ نظر ہے ۔اس روشن اور رخشاں تصویر کے پیچھے مسائل زدہ اور مرجھائے ہوئے چہرے ہیں جو اپنے اور اپنی نسلوں کے معاشی مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ جو چراغ تلے اندھیرا کے مصداق اتنی بڑی معاشی سرگرمی کے روشن میناروں تلے سکولوں اور ہسپتالوں کے لئے دست سوال دراز کئے بیٹھے ہیں۔بلوچستان کی شناخت طاقتور سردار اور چند نمایاں چہرے ہیں ۔ یہی چہرے ہر دور میں شریک اقتدار بھی ہوتے ہیں اور کوئی مسلح بغاوت بھی پھوٹے تو اس کے پیچھے بھی یہی نظر آتے ہیں ۔اس طرح بلوچ سردار صاحبان وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے رہتے ہیں۔ایسے میں بلوچستان کے منظر پر ایک ایسی شبیہ اُبھری جس کا تعلق کسی بڑی کلاس سے نہیں ۔وہ ماضی کی کسی روایتی گھن گھرج سے بھرپور کہانی کا کردار اور حصہ ہیں ۔اس احتجاج کو ایک ماہ کا عرصہ ہونے کو ہے ۔احتجاج کا آغاز خواتین کی ایک بہت بڑی ریلی سے ہوا تھا اور گوادر جیسے دور دراز اور قبائلی معاشرے میں خواتین کا اس قدر بڑی تعداد میں گھروں سے باہر آنا اچنبھے کا باعث بنا تھا ۔اس کے بعد گوادر کے احتجاج کی گونج رفتہ رفتہ سوشل اور پھر مین سٹریم میڈیا میں سنائی دینے لگی ۔اس تحریک کی قیادت ایک متحمل مزاج اور صلح جوقسم کی شخصیت مولانا ہدایت الرحمان کے پاس ہے ۔جن کے مطالبات پیش کرنے کا انداز بھی بہت صلح جویانہ اور زبان کسی تلخی اور شدت سے خالی ہے۔گوادر کے اس احتجاج کا مقصدکچھ جائز اور مقامی نوعیت کے مطالبات کی منظوری ہے ۔جن میں ساحلی علاقوں میں مچھلی کا شکار کرنے والے ٹرالر مافیا کو لگام دینا ،ایران کے ساتھ تجارت کی سہولت بحال کرنا اور منشیات کو روکنا اور چیک پوسٹوں کی تعداد کو کم کرنا ہے ۔گوادر کی یہ تحریک جسے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہورہی ہے ماضی کی تحریک کی طرح مسلح ہے نہ ان کا ایجنڈا سی پیک کی مخالفت ہے ۔مولانا ہدایت الرحمان بار بار یہ بات واضح کررہے ہیں کہ ان کی تحریک کا مقصد سی پیک کی مخالفت نہیں بلکہ وہ عوام کو اپنی سرزمین پر عزت کے ساتھ سر اُٹھا کر جینے کا حق دینا چاہتے ہیں۔انہوں نے اس دل خراش حقیقت کا اعتراف کیا کہ گوادر کے عوام کو ابھی تک سی پیک سے چیک پوسٹوں کے سوا کچھ نہیں ملا ۔یہ جملہ اپنے اندر ناانصافی اور محرومی کی پوری کہانی لئے ہوئے ہے ۔دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی معاشی سرگرمی کے اثرات کاپہلا فائدہ مقامی عوام کو ملتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر منصوبہ بندی میں کوئی کمی ہے یا نیت کی کوئی کھوٹ ہے۔بڑی معاشی سرگرمی کا نقصان مقامی آبادی کو یہ ہوتا ہے کہ طاقتور مافیا ز حالات کی لہر پر سوار ہوتے ہیں ۔ان کے پاس وسائل بھی ہوتے ہیں اور منصوبہ بندی بھی اور فیصلہ ساز طاقتوں کے ساتھ ان کے مراسم بھی ہوتے ہیں ۔اس طرح نچلی سطح پر غریب آدمی بس انگور وں کو دیکھ کر کڑھتا اور آخر میں انگور کھٹے ہیں کہہ کر منہ موڑنے پر مجبور ہوتا ہے ۔گوادر میں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے ۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے گوادر کے عوام کے جائز مطالبات کا نوٹس خوش آئند ہے اور اب ان مسائل کے حل میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے ۔گوادر اس وقت سی پیک اور چین مخالف عالمی طاقتوں کے نشانے پر ہے اور مغرب کی مستقبل کی منصوبہ بندی کا حصہ بھی ۔اس لئے یہاں کسی قسم کی بدامنی دشمن کے مقاصد کو آگے بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔مولانا ہدایت الرحمان ایک صلح جو اور معاملہ فہم شخصیت معلوم ہوتی ہیں ۔ان پر ریاست وہ الزام نہیں لگاسکتی جو اس سے قبل پی ٹی ایم پر لگایا گیا تھا یعنی ان کے مطالبات جائز مگر لہجہ ٹھیک نہیں ۔وزیراعظم عمران خان نے ایک بھرے جلسے میں یہ گلہ کیا تھا ۔مولانا ہدایت الرحمان کا ایجنڈا لمبا چوڑ ا نہیں مقامی ہے ۔اچھے انداز سے بات کرنے والوں کو سنا نہیں جاتا تو پھر برے انداز والوں کو سپیس ملتی ہے ۔وہ آگے آتے ہیں اور ان کے مطالبات کا دائرہ بھی بڑھتا اور پھیلتا چلاجاتا ہے ۔ایسے ہی معاملات میں پھر بندوقیں نکل آتی ہیں ۔اس طرح ایک زخم ناسور بنتا ہے ۔ماضی میں پاکستان اس طرح کے بہت سے تجربات سے گزرتا رہا ہے ۔

مزید پڑھیں:  اس طرح سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی؟