عدلیہ، عوام اور شور کا سینسرشپ

میڈیا ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے کہ جو نہ آپ کے فائدے کا ہے اور نہ اپنے فائدے کا بلکہ یوں سمجھئے آپ کے اور خود کے خودکشی کرنے کا ایک ہتھیار بن چکا ہے۔ دراصل میڈیا کو آپ جس طرح بنانا چاہتے تھے اسی طرح بن گیا ہے۔آپ کو مبارک ہو۔ میڈیا پر عوام کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ مین سٹریم میڈیا پر ایک جانب سرکار ہے اور دوسری جانب اپوزیشن جو کبھی سرکار تھی آپ کہاں گئے کبھی آپ نے سوچا۔معلوم ہے آپ کا جواب کیا ہوگا۔”ہمیں اب میڈیا کی ضرورت نہیں رہی۔ اب ہمارا اپنا سوشل میڈیا ہے”آپ بھی اس سے متفق ہوں گے۔ لیکن سوشل میڈیا پر بھی تو وہی کچھ ہے۔ حال کی سرکار اور ماضی کی سرکاروں نے اپنے اپنے میڈیا سیل قائم کر رکھے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر ان کی چیخ وپکار جاری ہے۔ یہ شور ایک سینسر شپ ہے۔ اس شور میں آپ کے مفادات کی آواز دبائی جا رہی ہے۔ ہماری ان صفحات پر کوشش رہی ہے کہ ہم اپنے عوامی ایشوز پر بات کریں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اس شور کی سینسر شپ میں یہ آواز سینسر کا شکار ہوگی لیکن اپنی جانب سے ہم کوشش تو کر سکتے ہیں۔ اس کا خیال ایسے آیا کہ ایک دیرینہ دوست نے مایوسی سے بھرا ایک صوتی پیغام بھیجا۔ کہنے لگا کہ روزنامہ مشرق میں قانون کے حوالہ سے آگہی کا سلسلہ تو بہت اچھا ہے لیکن عدالتوں میں جو کچھ اجتماعی طور پر ہورہا اس پر بھی کچھ لکھا جائے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ اکثر دکاندار کسی زمانے میں بورڈ آویزاں کیا کرتے تھے کہ کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے۔ میرے اس دوست کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ عدالتوں میں بورڈ آویزاں کئے جائیں کہ ”روزمحشر تک انصاف نہیں ہوسکتا ” دراصل وہ قانون کے اس پورے نظام سے نالاں تھا۔ اس نے کہا کہ کبھی کبھی وکلا تاریخ آگے کر دیتے ہیں اور کبھی عدالت اگلی پیشی دے کر تاریخ آگے کر دیتی ہے۔ فوجداری اور دیوانی مقدمات میں پورا نظام ایسے چل رہا ہے کہ اب بیچارے عوام بھی عادی ہو گئے ہیں۔ اکثر سائل خود جا کر عدالت میں تاریخ آگے کرکے اپنے روزمرہ کے کام نمٹانے چلا جاتاہے۔ معزز جج صاحبان سے ملیں تو وہ ہزاروں مقدمات کا پلندہ آگے ڈال کر پوچھتے ہیں ذرا ایک دن میں ایک کیس بھی نمٹا کر دیکھیں۔ ان کے بقول مقدمات کی جو تعداد ہے اور سماعت کے لئے ججوں کی جو دستیاب تعداد ہے ایسے میں ”منجور اور نامنجور”سے ہی فوری فیصلہ سنایا جا سکتا ہے اس لئے اس میں فوری انصاف کی توقع نہ رکھی جائے۔ اعلیٰ عدلیہ پر تو دبائو اس سے بھی زیادہ ہے۔ ہمارے ایک ساتھی محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے فیصلہ کے خلاف سٹے(حکم امتناعی)کے حصول کے لئے ہائی کورٹ گئے۔گو کہ اس حوالہ سے قائم ادارے کیپرا وہ گئے۔ اسے اشارے دیئے گئے کہ وہ حق پر ہیں۔ لیکن قانون ہے کہ وہ کیپرا میں ہی کیپرا کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ لاکھوں خرچ کرنے کے بعد کہا گیا کہ کیپرا نے فیصلہ دیا تھا اب کیپرا اپنے فیصلہ کے خلاف کس طرح اپیل منظور کرتا۔سوال یہ کہ پھر اپیل کی جھنجھٹ کیوں؟ نیب پتا کرے کہ اپیل کے پیسے جمع تو ہوتے ہیں لیکن کیا اپیل منظور ہوتی ہے۔ اگر نہیں تو پھر پیسے کہاں جاتے ہیں؟اسے کہا گیا کہ اپیل میں وہی فیصلہ برقرار رکھا ہے اس لیئے وہ ہائی کورٹ جائیں۔ ایک ہی کیس میں دن بیت گیا اور اب سنا ہے کہ ڈھائی ماہ بعد ہی ان کی تاریخ لگنے والی ہے۔ جب تک تاریخ آئے گی سماعت ہوگی معزز جج فیصلہ کریں گے ٹھیکیدار کام کرا کے فنڈز لے کر کسی اور ٹھیکے پر لگ چکا ہوگا۔ اب تو سنا ہے کہ میڈیکل کالجز سے نکلنے والے زیر تربیت ڈاکٹر تنخواہ تو حکومت سے لیں گے البتہ کام پرائیویٹ ہسپتالوں میں کریں گے۔ واہ کیا بات ہے۔ یعنی چیف جسٹس صاحب نے بس بات کی سو کی کرنی وہی ہے جو سرکار نے کرنی ہے۔ اب عدالت نظام میں گھس تو نہیں سکتی کہ انتظامی کام بھی عدالت کرے ۔ عدالتوں پر عوام کے مقدمات کا بوجھ ہے کیونکہ آج بھی عوام کا عدالتوں پر اعتماد ہے۔ اس لئے تو عدالتوں میں جاتے ہیں۔ بہرحال ایک صحافی کی حیثیت سے ہمارا کام ہے مسائل کی نشاندہی کرنا۔ سرکار کا کام ہے انتظامی امور چلانا اور عدلیہ کا کام ہے انصاف کی فراہمی اور ان سب کا مقصد عوام کو، شہریوں کو ریلیف دینا۔ جمہوریت میں شہری کا عہدہ سب سے اوپر ہوتا ہے۔ یہی شہری اس پارلیمنٹ کو بناتے ہیں جس کے تحت ہم سارے اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ہم اپنی اولاد کو اچھی تعلیم اور اچھا مستقبل دینے کے لئے کتنی کوششیں کرتے ہیں لیکن کبھی ان کو اچھا شہری بنانے کا سوچا؟ اگر یہ اچھے شہری ہوتے تو ان کو جمہوریت کا پتا ہوتا۔ ان کو اپنی طاقت کا علم ہوتا۔ تب یہ شور کی سینسرشپ کا شکار نہ ہوتے، تب ان کو نظر آتا کہ ہمارے لیئے چند خاندان چند طبقات کی آپسی لڑائیاں اہم نہیں ہیں۔ یہ سارے کبھی ایک سرکار میں کبھی دوسری سرکار میں ہم کو ہی لوٹ چکے ہیں اور اب اس سرکار میں بھی ہمیں ہی لوٹ رہے ہیں۔ ہمیں پوچھنا چاہئے کہ عدالتی نظام کیوں ٹھیک نہیں ہو رہا؟سرکاری سکولوں سے ریکارڈ تعداد میں بچے تعلیم کیوں چھوڑ چکے ہیں؟ ایم ٹی آئی کے اب تک بچت،امدن کتنی؟ اخراجات کتنے؟مجھے علم ہے کہ ہزاروں سوالوں کی طرح یہ سوالات بھی شور کے سینسر میں سینسر ہو جائیں گے۔ میں اپنے دوست کو یہ نہ کہہ سکا کہ اس نے دل کی بھڑاس تو مجھ پر نکال دی ہم کہاں نکالیں۔ کیا کریں جب صحافت کرنی تو کرنی اس لیئے اسے بھی اپنا کام کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو