سیاست میں برداشت اور جدت نہیں رہی

ہمارے مُلک کی سیاست بس اب شخصیات سے ہی وابستہ ہو کے رہ گئی ہے۔ لوگ بھی سیاست کو اپنی پسندیدہ شخصیات کے حوالے سے جانتے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں جمہوری اقدار کے حوالے سے اپنے کارکنوں کی تربیت کرنے اور عوام کی ذہن سازی کرنے کی بجائے اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ آمریت کے ہر دَور میں جمہوریت کی بیخ کنی ہوئی اور اس کے خلاف ایک منظم طور پہ مہم چلائی جاتی رہی۔ غیر جماعتی بنیاد پر منعقد ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں من پسند لوگوں کو نوازا گیا۔ ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی منصوبوں کے فنڈ دے کر اُنہیں تاجر بنا دیا گیا۔ اب سیاست موقع پرستی میں تبدیل ہو چکی ہے اورنظریہ یا آئیڈیالوجی کی بات کرنے والے کو سادہ لوح سمجھا جاتا ہے۔ پہلے پہل ہمارے مُلک میں سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینز، طلبہ تنظیموںغرض ہر جگہ لیفٹ اور رائٹ کے حوالے سے سیاست تقسیم تھی۔انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے منشور میں ان کا سیاسی نظریہ بھی نمایاں ہوتا ۔مگر اب ارکانِ اسمبلی کی اکثریت کو کسی نظریہ کا احساس ہی نہیں اور کھلے عام کہتے ہیں کہ لیفٹ اور رائٹ کی باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں، حالانکہ حقائق ایسے نہیں ہیں اگر آپ یورپ کی جمہوریتوں کو بھی دیکھیں تو وہاں بھی لیفٹ اوررائٹ کی سیاسی تقسیم موجود ہے۔ فرانس، جرمنی،ہالینڈ میں تو لیفٹ کے لیڈر کھلم کھلا خود کو سوشلسٹ کہتے ہیں۔ انہیں نہ تو شرم محسوس ہوتی ہے نہ ہی وہ اپنا سوشلسٹ ہونے کو قصہ پارینہ قرار دیتے ہیں گو کہ یورپ میں سوشلسٹ ہونے کا نعرہ کلاسیکل سوشلزم کے معانی میں نہیں لیا جاتا۔ البتہ یورپی لیفٹ کے حامیوں نے پبلک ویلفیئر کے حوالے سے بہت سی عوام دوست پالیسیوں کو اپنے منشور میں شامل کیا ہے۔ اس طرح کے ایجنڈے یہاں نہیں ہیں۔ ضیاء کے دَور سے لے کر اب تک یہاں مسلسل شعوری کوشش سے لبرل اور روشن خیالی کی اصطلاح بھی ختم کر دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپس میں مکالمہ ، سیاسی تربیت اور نظریہ یا اصول کے نہ ہونے سے عدم برداشت اور گالم گلوچ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میرے ایک دوست اکثر یہ بات بڑی درد مندی سے کرتے ہیں کہ ہماری سیاست میں کاروباری اور مذہبی اثرات بڑھ چکے ہیں۔ اس سیاست کے حامی علامہ اقبال کا یہ شعر ” جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی” ہر موقع پر جواز کے طور پہ پیش کرتے ہیں۔ وہ موجودہ سیاست کو کرپشن کا کھیل کہہ کر رد کرتے ہیں اور اپنے ذہن کے مطابق مذہب کو سیاسی نظام کے طور پر نافذ تو کرنا چاہتے ہیں مگرکسی کو اس پرتنقید یا بحث کرنے کی اجا زت نہیں دیتے۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کی انتخابی مقبولیت بہت کم ہے، لوگ انہیں اپنے مسائل کا نجات دہندہ نہیں سمجھتے۔ تاہم ماضی میں مذہب کے جبری اور متشدد استعمال سے نہ صرف فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ مذہبی جماعتوں کی سٹریٹ قبولیت کو بھی بڑھاوا ملا ہے، اس حوالہ سے مختلف مذہبی جماعتوں پر انتہا پسند مکتبہ فکر کے اعتراضات بھی اُٹھائے گئے۔ ان موضوعات پر یہاں میڈیا یا کسی سیمینار میں کھل کر بات چیت بھی نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ تعلیمی اداروں میں بھی اساتذہ اپنے طالب علموں کی وسعت نظری کے لیے مذہب سے متصادم کسی موضوع کو ایک حد سے زیادہ نہیں پڑھا سکتے۔ دوسری جانب عوام کو بھی مسخ شدہ سیاسی تاریخ پر قائل رکھا گیا ہے۔ اگر تاریخ کو توڑنے مروڑنے کی بجائے درست رکھا جائے اور آئندہ نسلوں کو صحیح حقائق سے آگاہ رکھا جائے تو نہ صرف ملک میں کبھی امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو بلکہ بہت سی غیر سیاسی الجھنوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ وگرنہ ایک جھوٹ ہزار جھوٹ بولنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب ہم تاریخ کو سچ کی بجائے کسی مفاہمت سے جوڑ کر سناتے ہیں تو دراصل ہم اپنا ہی چہرہ مسخ اور بدنما کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی پہچان ختم کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم 23 مارچ کو یوم جمہوریہ بھی کہتے ہیں اور قرارداد پاکستان کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔اسی بنا پر ہم پاکستان میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں جبکہ ملوکیت اور آمریت کو مسترد کرتے ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ یہ فکر غالب نہیں رہی اور یہاں غیر جمہوری قوتوں اور بعض مفاد پرستوں کے مفادات کو ہی مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ اب سیاست دو مضبوط گروہوں میں بٹ چکی ہے، ایک وہ جو حکومت کریں اور دوسرے وہ جو انہیں حکومت نہ کرنے دیں۔ جب بھی حکومت گرنے کا خطرہ محسوس کریں ”اپنی” عوام کو سڑکوں پر لے آئیں، دھرنے دیں اور ایک دوسرے کو خوب گالیاں نکالیں۔ حکومت کرنے اور نہ کرنے دینے والے دونوں عوام کے ”ہر دل عزیز” نمائندے حکمرانی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ دوسرا حکومت کرے تو برا مناتے ہیں اور اس کی ٹانگیں کھینچنے میں جت جاتے ہیں۔ یہ عمل حکومت کو غلط کاموں سے روکنا کہلاتا ہے لیکن جب خود اقتدار میں ہوں تو اسی عمل کو عوام دشمنی کہاجاتا ہے۔ آج اس سیاست کو چھوڑ کر تاریخ کی غلطیوں کو زیر بحث لانا چاہئے۔ وگرنہ ہم جس کشمکش میں الجھ چکے ہیں اسی میں شطرنج کی بازی کی طرح زچ ہو جائیں گے۔ اور کھیل کو آگے چلانا ممکن نہیں رہے گا۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟